کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 712
مثبت اثرات کو نگاہوں کے سامنے رکھا، انہیں عملی جامہ پہنایا اور جان لیا کہ حق کی سربلندی کے لیے پختہ عزائم، مضبوط بازوؤں، پر سوز دلوں اور زندہ اعصاب کی ضرورت ہے۔ وہ انسانوں سے قربانیاں چاہتا ہے۔ اس لیے کہ ہمیشہ سے دنیوی زندگی میں اللہ کا یہی قانون چلا آرہا ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔[1] ۳: ابتلاء وآزمائش کا قانون الٰہی : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللّٰهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيبٌ (214)(البقرۃ: ۲۱۴) ’’یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی؟ سن لو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔ ‘‘ فتوحات عراق میں خاص طور پر معرکہ جسر جس میں ابوعبید نے دریا عبور کر لیا تھا، مسلمانوں کے سر آزمائش آپڑی، ہزاروں مسلمان شہید کر دیے گئے اور ان کا لشکر شکست سے دوچار ہوا۔ لیکن دوبارہ سنبھلے، صف بندی کی اور فارسیوں پر متعدد معرکوں میں کامیابی پائی، ارشاد الٰہی ہے: ﴿لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ(آل عمران: ۱۸۶) ’’یقینا تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی۔‘‘ ان آیات کریمہ کے اندر یہ بات صاف طور سے دیکھی جا سکتی ہے کہ امت مسلمہ پر ابتلاء وآزمائش کے نزول کا بیان نہایت یقینی اور تاکیدی شکل میں ہوا ہے۔[2] پس اس قانون الٰہی کی روشنی میں ضروری ہے کہ امت اپنی اعتقادی ودعوتی تحریک میں مشکلات ومصائب کا سامنا کرے، جانی ومالی تکلیفیں برداشت کرے اور ان تمام عوارض کا نہایت صبر وہمت سے مقابلہ کرے۔[3] ۴: ظلم اور ظالموں کے بارے میں قانون الٰہی: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ (100) وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ
[1] الجہاد فی سبیل اللّٰه ، القادری: ۲/۴۱۱ تا ۴۸۲۔