کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 710
امت پر گراں نہ سمجھتا، تو کسی سریہ میں شرکت کرنے سے پیچھے نہ رہتا۔ میری دلی تمنا تھی کہ اللہ کے راستہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔‘‘ * اور ایک مرتبہ فرمایا: ((مَا أَحَدٌ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یُحِبُّ أَنْ یَّرْجِعَ إِلَی الدُّنْیَا وَلَہُ مَا عَلَی الْاَرْضِ مِنْ شَیْئٍ إِلَّا الشَّہِیْدُ یَتَمَنّٰی أَنْ یَّرْجِعَ إِلَی الدُّنْیَا فَیُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا یَرَی مِنَ الْکَرَامَۃِ۔))[1] ’’جو شخص جنت میں جاتا ہے وہ پھر دنیا میں آنا پسند نہیں کرتا گو اس کو زمین کی ساری دولت مل جائے، البتہ شہید دنیا میں آنے اور دس بار اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی آرزو کرتا ہے کیونکہ وہ شہادت کی عزت وہاں دیکھتا ہے۔‘‘ ان کے علاوہ بہت سی احادیث ہیں جن سے دور اوّل کے مسلمان متاثر ہوئے اور آج بھی ان کے طریقہ پر زندگی گزارنے والے متاثر ہیں۔ ان کے تاثر کا یہ عالم ہے کہ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بوڑھے ہو چکے ہیں، پھر بھی غزوہ کو جا رہے ہیں۔ دیگر مجاہدین ان کے ساتھ احترام ومہربانی اور خیر خواہی کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں کہ آپ لوگ معرکوں میں شریک نہ ہوں آپ لوگ معذوروں میں سے ہیں، لیکن وہ جواب دیتے ہیں کہ سورئہ توبہ انہیں بیٹھنے سے روکتی ہے اور اگر ہم غزوہ سے پیچھے رہ گئے تو کہیں ہمارا شمار منافقین میں نہ ہونے لگے۔[2] جہاد فی سبیل اللہ کے بعض مفید نتائج: خلاف راشدہ کے زریں دور میں صحابہ اور تابعین، امت اسلامیہ کی بقا کے لیے جہاد کو ایک لازمی ضرورت سمجھتے تھے۔ اسی لیے عراق، شام، بلاد مشرق، مصر اور شمالی افریقہ کی فتوحات میں فریضہ جہاد کو بخوبی انجام دیا اور اس کے کافی مفید نتائج سامنے آئے، مثلاً: * امت مسلمہ کو انسانی قیادت کا اہل بنایا۔ * کفار کی طاقت توڑ دی اور انہیں مرعوب کیا۔ * اسلامی دعوت کی صداقت کا اعلان کیا اور یہی وجہ تھی کہ لوگ دین اسلام میں فوج در فوج داخل ہوئے، اسلام کو سر بلندی عطا ہوئی اور کفر سرنگوں ہوا۔ * دشمنان دین اسلام کے خلاف مسلمانوں کے مثالی اتحاد کا مظاہرہ ہوا اور اس کے ذریعہ سے انہوں نے پوری
[1] صحیح بخاری، الجہاد والسیر، باب افضل الناس مؤمن : ۲۷۸۶۔ [2] صحیح بخاری، الجہاد والسیر، درجات المجاہدین فی سبیل اللّٰه : ۲۷۹۰۔ [3] صحیح بخاری ، الإیمان، باب الجہاد من الإیمان : ۳۶۔