کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 695
ج: حملہ کے لیے مناسب وقت کا انتخاب: تاریخ نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کے مثالی صبر اور حملہ کے لیے مناسب وقت کے انتخاب میں ان کی مہارت و دانائی پر شاہد ہے ، وہ اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھتے ہوئے زوال آفتاب کے بعد جب ہوائیں چلنے لگتیں تب حملہ کرتے۔ نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے اسی فیصلہ کن جنگ میں شہادت پائی اور جب یہ خبر امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور رونے لگے اور اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ان کی شہادت کا آپ پر ایسا اثر ہوا کہ غم سے نڈھال ہوگئے۔ دوسرے شہداء کے بارے میں بھی پوچھا، چند لوگوں کا نام بتایا گیا۔ آپ ان لوگوں سے متعارف نہ تھے، آپ نے کہا: یہ مسلمانوں میں سے کمزور (غیر معروف) لوگ تھے، لیکن جس ذات نے انہیں شہادت کا اعزاز بخشا ہے وہ ان کے نام و نسب تک کو جانتا ہے۔ عمر کے پہچاننے سے ان کا کیا فائدہ ہوگا؟[1] نہاوند کے معرکہ میں ایک قابل ذکر واقعہ یہ پیش آیا کہ مسلمانوں کو مال غنیمت میں کسریٰ کے ذخیروں میں سے قیمتی جواہرات سے بھرے ہوئے دو ٹوکرے ملے، امیر لشکر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے وہ ٹوکرے سائب بن اقرع رضی اللہ عنہ کو دے کر امیرالمومنین کے پاس بھیج دیا، جب وہ ٹوکرے آپ کے پاس لائے گئے تو آپ نے کہا: انہیں بیت المال میں رکھ دو اور اپنے مجاہدین ساتھیوں سے جا ملو، سائب رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور واپس لوٹ پڑے۔ کچھ دیر بعد عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایلچی کو بھیجا کہ سائب کو واپس بلا لائے۔ وہ گھوڑے کی ٹاپوں کی علامت دیکھتے ہوئے سائب رضی اللہ عنہ کو بلانے نکل گیا، کوفہ میں ان سے جا ملا پھر انہیں واپس بلا لایا۔[2]جب عمر رضی اللہ عنہ نے سائب رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو کہا: اے سائب بات صرف یہ ہے کہ جس شام تم یہاں سے واپس گئے ہو اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ فرشتے مجھے کھینچ کر دونوں ٹوکروں کے پاس لاتے ہیں اور وہاں آگ کو خوب ہوا دیتے ہیں۔ وہ دونوں مجھے دھمکی دیتے ہیں کہ اگر میں نے ان ٹوکروں میں بھرے قیمتی سامان کو تقسیم نہ کیا تو وہ مجھے آگ سے داغیں گے۔ اس لیے اے سائب! ان دونوں کو لے جاؤ اور بازار میں اسے فروخت کر دو، لوگوں میں غلہ تقسیم کر دو، چنانچہ کوفہ کے بازار میں وہ سب فروخت کر دیا گیا اور اس کے بدلے غلہ تقسیم کیا گیا۔ اے عمر! تیری عظمت کا کیا کہنا، اللہ تجھ سے راضی ہو، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر چلا، خود معزز رہا اور اسلام ومسلمانوں کو معزز رکھا، اے اللہ! ہمیں اتباع کی توفیق دے اور ابتداع سے محفوظ رکھ۔[3] معرکہ نہاوند کے بعد عمائدین و زعمائے فارس بھاگ بھاگ کر ہمدان، طبرستان اور اصفہان جانے لگے اور مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی، مسلمانوں نے بھی یکے بعد دیگرے ان سے صلح کر لی۔[4]
[1] الفن العسکری الإسلامی: ۲۹۵، ۲۹۶۔