کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 694
نے معرکہ نہاوند کے موقع پر نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو اسلامی فوج کا سپہ سالار مقررکیا تھا۔ ان کی شہادت کی صورت میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو اور ان کی بھی شہادت ہو جانے پر نعیم بن مقرن رضی اللہ عنہ کو فوج کا سپہ سالار مقرر کیا تھا۔ نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ فوجی قیادت کو جن وجوہات کی بنا پر امتیازی حیثیت حاصل ہوئی وہ یہ ہیں: الف: جنگ چھیڑنے سے پہلے معائنہ کاروں کا وفد بھیجنا: نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے نہاوند کی طرف عسکری پیش قدمی کرنے سے پہلے طلیحہ بن خویلد اسدی، عمرو بن ابو سلمیٰ عنزی اور عمرو بن معدیکرب زبیدیرضی اللہ عنہم کو بطور معائنہ کار راستے کی تحقیق و تفتیش کے لیے روانہ کیا۔ واضح رہے کہ جس مقام پر اسلامی فوج نے پڑاؤ ڈالا تھا وہاں سے نہاوند بیس فرسخ سے کچھ زیادہ دوری پر واقع تھا۔ تینوں معائنہ کار ایک دن اور ایک رات کا سفر کرکے واپس لوٹے اور اپنے سپہ سالار کو بتایا کہ نہاوند تک کا جنگی سفر کرنے میں کسی ناخوشگوار حادثہ کے وقوع کا کوئی اندیشہ نہیں ہے اور نہ راستے میں کسی سے ملاقات ہوئی ہے۔ گویا معائنہ کاروں کی یہ جماعت موجودہ دور کے ہراول دستہ کے قائم مقام تھی، جو فوجی کارروائی کرنے سے پہلے دشمن کیفوج کا اندازہ اور راستے کی تحقیق کرتا ہے۔ اطمینان بخش مخبری کے باوجود نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کافی احتیاط برتتے ہوئے اپنی فوج کو لے کر آگے بڑھے اور جس رفتار سے قدم بڑھانا چاہیے قدم بڑھایا۔ ب: دشمن کو بھٹکانے کی جنگی حکمت عملی: معرکہ نہاوند کے موقع پر مسلمانوں نے دشمن کو بھٹکانے کے لیے جو حکمت عملی اپنائی تھی وہ بلا شبہ جنگی داؤ پیچ کا ایسا بہترین مظاہرہ تھا جسے قدیم وجدید تاریخ میں افواج استعمال کر سکتی ہیں۔ چنانچہ جب گہری خندق، خاردار تاروں اور ماہر تیر اندازوں سے گھری ہوئی، شہر نہاوند کی محفوظ شہر پناہ سے اندر گھسنا مسلمانوں کے لیے مشکل ثابت ہوا اور انہوں نے اندازہ کر لیا کہ ہمارا محاصرہ طول کھینچ سکتا ہے بالخصوص اس لیے بھی کہ ایرانیوں نے نہاوند میں خوراک اور ضروریات زندگی کے دیگر اسباب کو وافر مقدار میں جمع کر لیا ہے، تو انہوں نے دشمن کو ڈھیل دینے، اسے بہکانے اور فوجی سرنگوں اور میدان جنگ سے باہر لانے کے لیے نہایت کامیاب حیلہ تلاش کیا۔ وہ اپنی اس تدبیر میں کامیاب ہوگئے کہ دشمن کو شہر پناہ سے باہر لے آئے اور ان کے منتخب کردہ میدان جنگ سے ہٹا کر دوسری جگہ ان پر جنگ تھوپ دی۔ مسلمانوں نے اپنے منتخب نشانے ومقررہ حدود تک دشمن کو ڈھیل دی اور پھر اپنے اپنے بنکروں سے نکل کر ہر طرف سے آمنے سامنے کی جنگ چھیڑ دی، اب دشمن چونکا اور گھبرایا اور خود بخود اپنے مقابل کی جھولی میں آگرا اور شکست کا منہ لے کر رہ گیا۔ اس نازک صورت حال میں اپنے دشمن کو زیر کرنے اور اسے اس کی پناہ گاہ سے باہر نکالنے کے لیے مسلمانوں نے جو حیلہ اپنایا تھا اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ کار بھی نہ تھا۔[1]
[1] تاریخ الطبری: ۵؍۱۱۴۔ [2] الفن العسکری الإسلامی، ص: ۲۹۴۔ [3] الفن العسکری الإسلامی، ص: ۲۹۴۔