کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 689
جندی سابور کی فتح: جب ابو سبرہ بن ابورہم ساسانی بستیوں کی فتوحات سے فارغ ہوئے تو اپنے لشکر کے ساتھ آگے بڑھے اور ’’جندی سابور‘‘ میں پڑاؤ ڈالا۔ زر بن عبداللہ بن کلیب ان کا پہلے ہی سے محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ باری باری جھڑپیں ہوتیں اور کبھی ان کا غلبہ ہوتا کبھی ان کا۔ پھر بھی یہ لوگ اپنی جگہ ڈٹے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کی طرف سے کسی نے امان دینے کی پیش کش کر دی۔ انہیں امان کی خبر کیا ملی کہ فوراً فصیل کے دروازے خود ہی کھول دیے۔ جانور باہر نکل پڑے، بازار کھل گئے اور لوگ ادھر ادھر نظر آنے لگے۔ مسلمانوں نے ’’جندی سابور‘‘ والوں سے پوچھا: آخر تمہیں کیا ہوگیا کہ یہ سب خود ہی کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: آپ لوگوں نے ہمیں امان دی ہے اور ہم نے اسے قبول کر لیا ہے، ہم جزیہ دیں گے اور آپ لوگ ہماری حفاظت کریں گے۔ مسلمانوں نے کہا: ہم نے ایسا نہیں کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم جھوٹ نہیں کہہ رہے ہیں۔ پھر مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے سے استفسار کیا کہ آخر یہ اقدام کس نے کیا۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ُمکنف نامی ایک غلام نے یہ کیا ہے، جو پہلے انہیں میں سے تھا، اسی نے مسلمانوں کی طرف سے امان دینے کا پیغام لکھ کر بھیجا تھا۔ مسلمانوں نے کہا: اس کی امان دہی کا اعتبار نہ ہو گا کیونکہ یہ غلام ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں نہیں معلوم کہ آپ لوگوں میں کون آزاد ہے اور کون غلام؟ ہمیں امان دی گئی اور ہم اس پر قائم ہیں، ہم کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ آپ لوگ بے وفائی کر سکتے ہیں۔ مسئلہ کی پیچیدگی کے پیش نظر مسلمانوں نے اپنی اگلی کارروائی روک دی اور صورتحال سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لکھ کر روانہ کی۔ آپ نے جواباً تحریر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے وفاداری کو بڑی اہمیت دی ہے۔ تم وفادار نہیں ہو سکتے جب تک کہ اس عہد کو پورا نہ کرو۔ جب تک تم شک میں ہو انہیں مہلت دو اور ان کے ساتھ وفاداری کرو۔ چنانچہ مسلمانوں نے عہد وپیمان کی تصدیق کر دی اور واپس لوٹ آئے۔[1] یہ واقعہ اخلاقیات کے باب میں دشمنان اسلام پر مسلمانوں کی اخلاقی برتری کی زندہ مثال ہے۔ بلا شبہ جوق در جوق اور حیرت انگیز تیزی کے ساتھ کافروں کے اسلام قبول کرنے کے اہم اسباب میں اس اخلاقی برتری کا بنیادی کردار رہا ہے۔[2] نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ اور شہر کسکر: نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کسکر کے گورنر تھے، انہوں نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ میری اور کسکر والوں کی مثال اس نوجوان کی طرح ہے جس کے پہلو میں بدکار دوشیزہ بن سنور کر بیٹھی ہو، میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے عرض کرتا ہوں کہ مجھے کسکر سے معزول کر دیں اور مسلمانوں کی کسی فوج کے ساتھ جہاد پر بھیج دیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جواباً تحریر کیا: نہاوند جا کر مجاہدین کے ساتھ شریک ہو جاؤ اور تم ہی ان کے امیر ہوگے۔[3]
[1] تاریخ الطبری: ۵/ ۶۶۔