کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 688
کی تعریف اللہ واحد کے لیے ہے جس نے اسے اور اس جیسے دوسرے ظالموں کو ذلیل کیا۔ اے مسلمانو! دین اسلام کو مضبوطی سے پکڑ لو اور سنت نبوی پر عمل کرو۔ دنیا تمہیں متکبر نہ بنا دے کہ وہ محض ایک دھوکا ہے۔ وفد نے کہا: یہ اہواز کا بادشاہ ہے، اس سے بات کیجئے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک اس کے جسم کے لباس اور جواہرات سے مرصع تاج کو اتار نہیں دیا جاتا میں اس سے بات نہ کروں گا۔ چنانچہ اس کے جسم سے شاہی لباس اتار کر موٹا کپڑا پہنا دیا گیا۔ تب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ اس سے مخاطب ہوئے اور کہا: اے ہرمزان! کیا تم نے غداری کا انجام اور حکم الٰہی دیکھ لیا؟ اس نے کہا: اے عمر! زمانہ جاہلیت میں اللہ نے ہمیں اور تمہیں چھوڑ رکھا تھا۔ جب ہم دونوں اللہ کو نہیں مانتے تھے تو ہم تم پر غالب آجاتے تھے اور اب جب اللہ تمہارے ساتھ ہوگیا تم ہم پر غالب آگئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میں تم اپنے اتحاد کی وجہ سے فتح مند ہوتے اور ہم آپسی اختلافات کی وجہ سے شکست کھاتے تھے اور آگے آپ نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ بار بار تم نے ہمارے ساتھ بدعہدی کی ہے، کیا اس کے لیے تمہارے پاس کوئی عذر یا حجت ہے؟ ہرمزان نے کہا: مجھے خوف ہے کہ کہیں میرے بتانے سے پہلے آپ مجھے قتل نہ کر دیں۔ آپ نے فرمایا: اس سے بے خوف رہو۔ پھر ہرمزان نے پینے کے لیے پانی مانگا۔ اسے ایک معمولی پیالے میں پانی دیا گیا۔ اس نے پیالہ دیکھ کر کہا: میں پیاسا مر جاؤں گا لیکن اس پیالے میں پانی پینے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ پھر اسے اس کے پسندیدہ برتن میں پانی دیا گیا۔ اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے پیالہ ہاتھ میں اٹھایا اور کہا: مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں پانی پینے کے دوران میں قتل نہ کر دیا جاؤں؟ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تک تم پانی نہ پی لو گے ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے۔ اس نے پورا پانی پی لیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے دوبارہ پانی دو، قتل اور پیاس کو اکٹھا نہ کرو۔ اس نے کہا: مجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے تو امان طلبی کی نیت کی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تجھے قتل ہی کروں گا۔ اس نے کہا: آپ مجھے امان دے چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تو جھوٹا ہے: انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمومنین! یہ سچ کہہ رہا ہے۔ آپ اسے امان دے چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے انس! تم کتنی غلط بات کہہ رہے ہو، کیا میں مجزأۃ اور براء کے قاتل کو امان دے سکتا ہوں، تم کوئی حل پیش کرو ورنہ تمہیں سزا دوں گا۔ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے کہا: آپ نے کہا ہے: ’’تم بے خوف رہو اور مجھے بتاؤ۔‘‘ اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’جب تک تم پانی نہ پی لو گے ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے۔‘‘ مجلس میں موجود دوسرے لوگوں نے بھی انس رضی اللہ عنہ کی تائید کی۔ آپ ہرمزان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تم نے مجھے دھوکا دے دیا۔ اللہ کی قسم! میں مسلمان کے علاوہ کسی کے دھوکے میں نہیں آتا، چنانچہ وہ بھی اسلام لے آیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے دو ہزار درہم ماہانہ خرچ مقرر کیا اور مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔[1]
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۱/۲۰۴۔