کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 684
’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں پر (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعہ سے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ فتح رامہرمز: جلولاء میں ہزیمت اٹھانے کے بعد اہل فارس اپنے فرماںروا یزدگرد کے ابھارنے کی وجہ سے دوبارہ آمادہ قتال ہوئے اور ہرمزان کی قیادت میں رامہرمز میں سب اکٹھا ہوئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان کے اس اجتماع کی خبر امیرالمومنین کو دے چکے تھے، اس لیے آپ کو دربار خلافت سے حکم ہوا کہ نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کوفہ کی ایک فوج دشمن سے مقابلہ کے لیے روانہ کریں اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سہل بن عدی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بصرہ سے ایک فوج روانہ کریں اور جب دونوں افواج اکٹھی ہو جائیں تو ابو سبرہ بن ابی رہم رضی اللہ عنہ کو ان کا سپہ سالار بنا دیا جائے۔ اس کے بعد جو بھی فوجی کمک وہاں پہنچے سب انہی کے تابع ہوں گی، چنانچہ نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کوفہ سے اپنی فوج لے کر ہرمزان کی طرف روانہ ہوئے۔ ان دنوں ہرمزان رامہرمز میں مقیم تھا۔ جب ہرمزان کو نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبر ملی تو حملے میں پہل کے لیے آگے بڑھا اور چاہا کہ نعمان کے آنے سے پہلے ہی ان کا راستہ کاٹ دیا جائے۔ اسے اہل فارس کو مدد کی پوری توقع تھی اور وہ اس کی مدد کے لیے آگے آئے بھی، لیکن پہلا ہی امدادی دستہ منتشر نظر آیا۔ نعمان رضی اللہ عنہ اور ہرمزان کی افواج اربک میں بھڑ گئیں۔ پھر دونوں میں سخت جنگ ہوئی۔ آخر میں اللہ نے ہرمزان کو ہزیمت اور نعمان رضی اللہ عنہ کو فتح دی۔ وہ رامہرمز چھوڑ کر ’’تستر‘‘ بھاگ نکلا، ادھر سہل بن عدی رضی اللہ عنہ بھی اپنے ساتھ بصرہ کی فوج لے کر آ پہنچے، یہ لوگ ابھی اہواز کے بازار میں تھے کہ معرکہ میں فتح کی خبر انہیں مل گئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہرمزان ’’تستر‘‘ بھاگ گیا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ یہیں سے تستر کی طرف چل پڑے اور نعمان رضی اللہ عنہ بھی اپنی فوج کے ساتھ اسی طرف بڑھے۔[1] فتح تستر: نعمان بن مقرن اور سہل بن عدی رضی اللہ عنہما اپنی اپنی فوج لے کر تستر پہنچے اور ابو سبرہ بن ابو رہم رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اپنی افواج کو اکٹھا کیا، ابو سبرہ نے امیرالمومنین سے مزید فوج کا مطالبہ کیا۔ امیرالمومنین نے ابو موسیٰ
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۷۹۔ [2] تاریخ الطبری: ۵/ ۴۸۰۔