کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 682
جب مسلمانوں کو خبر ملی کہ دشمنوں نے خندق پاٹ دی ہے تو آپس میں طے کیا کہ ہم کیوں نہ دوبارہ زبردست حملہ کریں، انہیں موت کے گھاٹ اتار دیں یا خود شہید ہو جائیں؟ اس طرح مسلمان دوسرے مرحلے میں ان سے جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن جب خندق کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوہے کی خاردار باڑ باندھی ہوئی ہے تاکہ مسلم شہ سوار آگے نہ بڑھ سکیں اور جن راستوں سے مسلمانوں پر حملہ کرنا ہے صرف انہی جگہوں کو خالی رکھا گیا ہے۔ بہرحال مسلمان اندر گھسے اور بڑا خون ریز معرکہ ہوا۔ اس کی نوعیت قادسیہ کے ’’لیلۃ الہریر‘‘ جیسی تھی، بس فرق اتنا تھا کہ یہاں کی کارروائی مختصر تھی اور جلد ہی اختتام کو پہنچ گئی۔ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ جس سمت سے حملہ آور ہوئے تھے اسی طرف سے اندر گھس گئے اور خندق کے صدر دروازہ تک پہنچ کر اپنے ایک مجاہد ساتھی سے کہا کہ بلند آواز سے کہو: اے مسلمانو! ادھر دھیان دو، تمہارا امیر دشمن کی خندق کے صدر دروازہ تک پہنچ چکا ہے۔ اس کی طرف بڑھو، تمہیں آگے بڑھنے سے کوئی روک نہ پائے۔ قعقاع رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر اس لیے اختیار کی تھی تاکہ مسلمانوں کے دل چھوٹے نہ ہوں، بلکہ انہیں عزم و حوصلہ کی طاقت ملے۔ بہرحال مسلمانوں نے نہایت جواں مردی کے ساتھ حملہ کیا اور انہیں قطعاً یہ شک نہ ہوا کہ ہاشم وہاں نہیں ہو سکتے۔ اس طرح جنگ کو گرماتے اور تیر و تفنگ کو چلاتے ہوئے وہ خندق کے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ ہاشم رضی اللہ عنہ نہیں قعقاع رضی اللہ عنہ ہیں اور دروازہ پر ڈٹے ہیں اور دشمن دائیں بائیں بھاگ رہے ہیں اور جو خار دار باڑ مسلمانوں کے لیے لگائی تھی وہی ان کے لیے مصیبت بن گئی، ان کے گھوڑے اس سے مرنے لگے پھر دشمن پیدل بھاگ کھڑے ہوئے، مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور دوڑا دوڑا کر سب کو قتل کر دیا، صرف چند ایک بچ سکے۔ اس دن اللہ کی مدد سے تقریباً ایک لاکھ فارسی مارے گئے، آگے پیچھے، دائیں بائیں غرضیکہ پورے میدان پر جیسے مقتولین کی لاشوں کی چادر بچھا دی گئی ہو اور اسی وجہ سے اسے جلولاء[1] کہا جاتا ہے۔ یہ ہے معرکہ جلولاء کی روداد۔[2] الف: ہماری فوج نے اپنے کارناموں سے ہماری زبانیں کھول دی ہیں: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابی سفیان کو مالیاتی حساب وکتاب کے ساتھ امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ زیاد ہی اموال غنیمت اور دیگر مالیاتی حساب وکتاب کے ذمہ دار تھے۔ جب وہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو اپنی آمد کا مقصد اور لڑائی کے حالات کو نہایت دل نشین انداز میں بیان کیا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس طرح تم نے مجھ سے بیان کیا ہے کیا ایسے ہی لوگوں میں کھڑے ہو کر بیان کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: جب آپ سے بیان کر سکتا ہوں تو دوسروں کے سامنے کہنے میں کیا خوف؟ اور پھر کھڑے ہو کر اموال غنیمت، مجاہدین کے سرفروشانہ کارناموں اور دشمن کے دیگر علاقوں میں اقدامی کارروائی کی اجازت طلبی کا ذکر کیا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ ان کے انداز بیان سے بہت متاثر ہوئے اور کہا: یہ نہایت فصیح و بلیغ خطیب ہیں۔ زیاد نے
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۷۲، البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۶۸۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۷۵۔