کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 678
اس طرح تمام مسلمانوں نے صحیح سالم دریا عبور کیا، کسی کو کوئی مشکل پیش نہ آئی اور نہ کوئی دریا میں غائب ہوا۔ صرف ’’غرقد بارقی‘‘ دریا میں اپنے گھوڑے سے گر گئے، لیکن فوراً ہی قعقاع رضی اللہ عنہ نے اپنے گھوڑے کی لگام ان کی طرف پھینک دی، جس کے سہارے قعقاع رضی اللہ عنہ نے ان کو کھینچ کر دریا پار کروایا۔ بارقی ایک طاقتور آدمی تھے، جب دریا عبور کر لیا تو کہا: اے قعقاع! ہماری بہنیں تم جیسے بہادروں کو جننے سے بانجھ ہو گئیں ہیں۔ وہ رشتہ میں قعقاع رضی اللہ عنہ کے ماموں لگتے تھے۔[1] فارسیوں نے جب مسلمانوں کو دریا عبور کر کے ساحل پر پہنچتے دیکھا تو دہشت زدہ ہوگئے، یزدگرد حلوان کی طرف بھاگا اور مسلمان بلا کسی معارضہ ومزاحمت کے ایوان فارس میں داخل ہوئے۔ سعد رضی اللہ عنہ قصر ابیض (کسریٰ کے شاہی محل) میں داخل ہوئے اور اسے جانماز بنایا اور اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: ﴿كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (25) وَزُرُوعٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ (26) وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فَاكِهِينَ (27) كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِينَ (28)(الدخان: ۲۵۔۲۸) ’’وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے اور کھیتیاں اور راحت بخش ٹھکانے اور وہ آرام کی چیزیں جن میں عیش کر رہے تھے، اسی طرح ہوگیا اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا۔‘‘ آپ نے وہاں آٹھ رکعت نماز فتح پڑھی اور مدائن میں سب سے پہلے کتیبہ احوالعاصم بن عمرو تمیمی کی قیادت میں داخل ہوا اور پھر کتبہ خرساء قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی قیادت میں داخل ہوا۔[2] ۶: مسلمانوں کی امانت و دیانت کے چند بے نظیر نمونے: الف: میں اللہ کی حمد کرتا ہوں، اور اس کے ثواب سے راضی ہوں:… جب مسلمانوں کا قافلہ مدائن میں اتر گیا اور مال غنیمت اکٹھا کیا جانے لگا تو ایک آدمی اپنے ساتھ بھرا ہوا تھیلا لایا اور خزانچی کے حوالے کیا۔ خزانچی نے تھیلے میں بھری ہوئی قیمتی اشیاء کو دیکھا تو بے ساختہ کہنے لگا، اس طرح کی قیمتی چیزیں کبھی ہماری نظروں سے نہ گزری تھیں، ہمارے پاس جو کچھ مال غنیمت ہے وہ پورا کا پورا بھی اس کے برابر نہیں ہے۔ خزانچی کے ساتھ دیگر مسلمانوں نے تھیلا لانے والے سے پوچھا: کیا تم نے اس میں سے کچھ نکال لیا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو میں اسے لے کر تمہارے پاس نہ آتا۔ سب لوگوں نے یہ جواب سن کر سمجھ لیا کہ یہ کوئی بڑی شخصیت ہے، چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم میں تم کو ہرگز اپنا نام نہیں بتاؤں گا کہ تم میری تعریف کرو گے اور نہ کسی دوسرے کو بتاؤں گا کہ وہ میری خوبیوں پر تبصرہ کریں۔ لیکن میں اللہ کی حمد کرتا ہوں اور اس کے ثواب سے راضی ہوں۔ اس آدمی کے جانے کے فوراً بعد لوگوں نے اس کے پیچھے ایک آدمی لگا دیا، وہ جب اپنی قوم میں پہنچا تو پیچھے جانے والے نے لوگوں سے اس کا نام
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۱/۱۶۹۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۵۹۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۵۹۔ [4] التاریخ الإسلامی: ۱۱/۱۷۰۔