کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 675
پہنچنے کے لیے میں نے دریا عبور کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے۔ سب نے بیک زبان کہا: ہمارے اور آپ کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا فیصلہ کیا ہے، آپ قدم بڑھائیں۔[1] آیئے ہم تھوڑی دیر یہیں پر ٹھہریں اور سعد رضی اللہ عنہ کے اس خطبہ سے ثابت ہونے والے دروس، فوائد اور عبرت وموعظت کی باتوں کا مطالعہ کریں: * اللہ تعالیٰ اپنے حق پرست مومن بندوں کے ساتھ ہوتا ہے، ان کی نصرت وتائید کرتا ہے، جن حیران کن حالات میں سعد رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا تھا وہ یقینا اللہ کی نصرت وغیبی تائید تھی تاکہ ان کا دل ثابت رہے اور درپیش مسئلہ کی طرف جس کا انجام نامعلوم ہے پیش قدمی کرے۔ * اللہ تعالیٰ نظام دنیا کو اپنے مومن بندوں کے موافق کر دیتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ اچانک دریا کی طغیانی بڑھ گئی اور بظاہر ایسا لگا کہ اس سے دشمن (فارسی فوج) کا فائدہ ہو گا، کیونکہ مسلمانوں کو دریا عبور کرنے کی ساری کوششیں ناکام نظر آنے لگی تھیں، لیکن اس کے برعکس دریا کی طغیانی سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا، طغیانی دیکھ کر کفار مطمئن ہو چکے تھے کہ بھلا ان حالات میں مسلمان کیونکر حملہ کر سکتے ہیں، اس لیے انہوں نے نہ کوئی دفاعی تیاری کی اور نہ سامان فرار کا انتظام کیا۔ * صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیک آدمی کے اچھے خواب سے بہتر فال لیتے تھے اور کسی عمل کی انجام دہی کے لیے اسے باعث ترجیح سمجھتے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ پر حسن ظن تھا، وہ لوگ عمدہ خوابوں کو اللہ کی طرف سے نصرت و تائید کی ایک علامت سمجھتے تھے۔ * خلفائے راشدین کے عہد میں مسلمان قائدین عموماً پختہ رائے اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے، مفید مواقع کو غنیمت سمجھتے تھے، ان کی افواج باوجودیکہ ایمانی غیرت وقوت سے مالا مال ہوتی تھیں، پھر بھی وہ ان کے حوصلوں کو بلند کرتے اور صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتے۔ ذرا غور کریں کہ سعد رضی اللہ عنہ اپنی فوج کو اخلاص و تقویٰ کے ہتھیار سے مسلح ہو کر دریا عبور کرنے کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ آپ اس کی ایمانی غیرت و قوت سے بہت حد تک مطمئن ہیں۔ چنانچہ آپ اللہ سے استعانت چاہتے ہوئے اور پھر ایمانی قوت کے اس بلند معیار و مرتبہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامی کارروائی کرتے ہیں۔ * صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ اپنے قائدین کی مکمل اطاعت کرتے تھے اور اسے شرعی فریضہ اور عمل صالح تصور کرتے تھے کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہوتی تھی۔[2] دریائے دجلہ کو عبور کرنا اور فتح مدائن: سیّدناسعد رضی اللہ عنہ دریا عبور کرنے کے لیے سب سے آگے بڑھے اور کہا: ’’کون ہے جو آگے بڑھے اور دریا کے
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۵۱، التاریخ الإسلامی: ۱۱/۱۶۰۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۱/۱۶۰۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۵۱۔