کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 674
سعد رضی اللہ عنہ نے جگہ کی مناسبت سے اس آیت کی تلاوت کی تھی، دراصل وہاں پوران کسریٰ کے کچھ مخصوص فوجی دستے تھے جنہیں بوران کہا جاتا تھا، جو روزانہ قسمیں کھا کھا کر شاہ ایران کو یقین دلاتے تھے کہ جب تک ہم زندہ ہیں شاہ فارس کا زوال نہیں ہو سکتا۔[1] زہرہ بن حویہ نے اپنی شہادت سے قبل ان تمام دستوں کو شکست دے کر انہیں تتر بتر کر دیا۔[2] رات کی شدید تاریکی میں جب مسلمانوں کے قدم بہرسیر میں داخل ہو رہے تھے تو انہیں سفید موتی کی طرح چمک دار عمارت نظر آئی۔ یہ شاہان کسریٰ کا محل تھا، اسے دیکھ کر ضرار بن خطاب بول اٹھے: اللہ اکبر! کسریٰ کا اتنا سفید اور چمک دار محل، اللہ نے اور اس کے رسول نے ہم سے اسی کا وعدہ کیا تھا اور پھر یکے بعد دیگرے صبح تک تکبیر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔[3] ۳: دریائے دجلہ عبور کرنے سے متعلق سعد رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج کا باہمی مشورہ: جب سعد رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ کسریٰ شاہ فارس دریائے دجلہ کی تمام کشتیوں کو اپنے قبضہ میں لے کر مدائن کے دور دراز مشرقی علاقہ میں چلا گیا ہے تو آپ کو پریشانی لاحق ہوئی کہ دشمن دریا کے اس پار ہے اور عبور کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ، کیونکہ کشتیاں نہیں ہیں۔ لہٰذا اب کیا کیا جائے؟ آپ اس بات کا خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ اگر دشمن بھاگ جائیں تو پھر ان کا خاتمہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ابھی آپ فکر مند تھے کہ فارس کے چند باشندے جو مسلمانوں کی اطاعت قبول کر چکے تھے انہوں نے آپ کو ایک راستہ بتایا جہاں سے خطرات کے سائے میں دریا عبور کرنا ممکن تھا، لیکن آپ نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور ابھی تردد میں تھے کہ دریائے دجلہ میں طوفانی لہریں اٹھیں اس کا پانی سیاہ نظر آنے لگا اور موجوں کے تھپیڑوں سے جھاگ کی کثرت ہوگئی۔ یہ منظر دیکھ کر مسلم فوج سخت مشکل میں پڑ گئی۔ اسی دوران سعد رضی اللہ عنہ کو اونگھ آگئی اور آپ نے ایک عمدہ خواب دیکھا کہ مسلمانوں کے گھوڑوں نے دریائے دجلہ عبور کر لیا ہے۔ چنانچہ آپ نے خواب کی تعبیر میں دریا عبور کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا، لوگوں کو اکٹھا کیا، اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور فرمایا: اے لوگو! تمہارے دشمن نے اس دریا کی آڑ میں تم سے پناہ لے رکھی ہے۔ موجودہ صورت حال میں تم ان سے چھٹکارا نہیں پا سکتے، حالانکہ وہ جب چاہیں تم سے بچ کر نکل سکتے ہیں اور اپنی کشتیوں میں بیٹھے بٹھائے تم سے جھڑپیں کر سکتے ہیں۔ تمہیں اپنے پیچھے سے دشمن کے کسی حملے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تمہارے سابقہ مجاہدین نے پشت پر واقع دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے، ان کی سرحدوں کی لکیریں کھینچ دی ہیں اور خود کو اس کام کے لیے قربان کر گئے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ دنیا کے چنگل میں پھنسنے سے پہلے خلوص نیت کے ساتھ اپنے دشمن پر حملہ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے، سنو! دشمنوں تک
[1] کوثی ایک بستی کا نام ہے، وہاں کی ترنجبین اعلیٰ درجہ کی مانی جاتی تھی۔ (مترجم) [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۵۵۔