کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 673
نہیں معلوم کہ میں نے کیا کہا تھا۔ تاہم مجھے کافی اطمینان ہے اور امید ہے کہ جو کچھ کہا ہو گا وہ خیر ہو گا۔ پھر لوگ باری باری ابو مفزز سے پوچھنے آتے۔ جب سعد رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سنی تو وہ بھی ہمارے پاس آئے اور کہا: اے ابومفزز! تم نے اس (ایلچی) سے کیا کہا تھا؟ آپ نے کہا: اللہ کی قسم! وہ سب بھگوڑے ہیں اور سعد رضی اللہ عنہ سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہا تھا۔ اس کے بعد سعد رضی اللہ عنہ نے ندا لگوائی، سب اکٹھے ہوئے اور متحد ہو کر فارسیوں پر حملہ کیا اور ہماری منجنیقیں ان پر پتھروں کی بارش کر رہی تھیں۔ شہر میں کوئی متنفس نظر نہ آیا اور نہ کوئی مزاحم ہوا، صرف ایک آدمی ملا اس نے امان طلب کیا اور ہم نے اسے امان دے دی، اس نے کہا: اگر کوئی بچ رہا ہو تو اسے بھی گرفتار کرنے سے کیا مانع ہے؟ وہ کہنا چاہتا تھا کہ اب کوئی نہیں بچا۔ پھر جواں ہمت مجاہدین قلعہ کی طرف بڑھے اور ہم نے اس کا صدر دروازہ کھول دیا، ہمیں وہاں نہ کوئی سامان ملا اورنہ کوئی آدمی۔ صرف چند قیدی نکلتے ہوئے ملے۔ ہم نے ان قیدیوں سے اور جس کو امان دی تھی ، اس سے پوچھا: حکومت فارس کے ارکان کیوں بھاگ گئے؟ تو انہوں نے بتایا کہ بادشاہ نے مصالحت کی خاطر تم لوگوں کے پاس اپنا ایلچی بھیجا تھا، لیکن جب تم لوگوں نے اسے جواب دیا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب کوئی صلح ممکن نہیں اور کوثی[1] کی ترنجبین (نارنگی) کے ساتھ افریذین کا شہد کھا کر ہی واپس جائیں گے، تو بادشاہ نے کہا: ہائے بربادی! اب میں سمجھتا ہوں کہ ان کی زبانوں سے گویا فرشتے بول رہے ہیں۔ وہ ہم پر حملہ کریں گے اور عربوں کی طرف سے جواب دیں گے۔ اللہ کی قسم ! اگر ایسی بات نہیں ہے تو اس آدمی کی زبان پر الٰہی القا ہوا ہے تاکہ ہم اپنے اگلے اقدام سے پلٹ جائیں۔ اس لیے چلو مدائن کے مدینہ قصویٰ (دور والے شہر) شہر میں بھاگ چلو۔[2] ۲: مظلم ساباط میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری اور آیت قرآنی کی تلاوت: مدائن کے مغربی علاقہ ’’بہر سیر‘‘ میں ہاشم رضی اللہ عنہ جب اپنی فوج کے ساتھ پہنچ گئے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی ساباط میں اترے اور وہاں پہنچتے ہی یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ(ابراہیم: ۴۴) ’’اور لوگوں کو اس دن سے ڈرا جب ان پر عذاب آئے گا، تو وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں قریب وقت تک مہلت دے دے، ہم تیری دعوت قبول کریں گے اور ہم رسولوں کی پیروی کریں گے۔ اور کیا تم نے اس سے پہلے قسمیں نہ کھائی تھیں کہ تمھارے لیے کوئی بھی زوال نہیں۔‘‘
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۵۴۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۵۳۔ [3] التاریخ الاسلامی، ۱۱/۱۶۳۔