کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 665
مضافات کے سارے لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اس تفصیلی خبر سے مطلع ہونے کے بعد خلیفۂ وقت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جنگی حکمت عملی سے متعلق قراردادیں پاس کیں۔[1] * اس معرکہ میں مسلمانوں نے ایک جدید اسلوب یہ بھی اپنایا کہ جب سے دشمن کی زمین میں پہنچے اور وہاں پڑاؤ ڈالا اسی وقت سے اشیائے خوردنی وسامان رسد کی فراہمی، نیز دشمن کے حوصلے پست کرنے کے لیے ترکتازی اور چھاپہ ماری کا سلسلہ شروع کر دیا، اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ فوج کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی رہتی۔ کسی دن صرف گائیں ہاتھ آتیں اور کسی دن صرف مچھلیاں اور کسی دن دوسری چیزیں۔ بہرحال اس چھاپہ ماری کا ایک مقصد یہ تھا کہ اشیائے خوردنی کی تکمیل ہوگی تو دوسرا اہم مقصد یہ تھا کہ دشمن کے حوصلے پست کر دیے جائیں اور ان میں جنگ کے اثرات اور اس کی مشکلات وشدائد کو برداشت کرنے کی قوت باقی نہ رہے۔ * جنگ قادسیہ سے قبل فارسیوں سے مسلمانوں کی جھڑپیں ہوئیں، جن میں سارے مسلمانوں نے کمین گاہوں میں چھپ کر حملہ کرنے کا نیا اسلوب ایجاد کیا۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ دشمن کی قوتوں اور صلاحیتوں کو اندر سے توڑ دیا جائے۔ چنانچہ بکیر بن عبداللہ لیثی شہ سواروں کا دستہ لے کر صفین تک جانے والے راستے میں واقع کھجوروں کے ایک باغ میں ایک فارسی قافلہ پر حملہ کرنے کے لیے چھپ گئے، اس قافلہ میں ازادمرد بن ازاذبہ کی بہن یعنی حاکم حیرہ مرزبان کی بیٹی تھی، جو ایک عجمی سردار حاکم ’’صنّین‘‘ سے بیاہی گئی تھی۔ جب یہ قافلہ مسلمانوں کے کمین گاہ سے گزرا تو مسلمانوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ بکیر نے دلہن کے بھائی شیرزاد بن ازاذبہ کی پشت پر ایسا وار کیا کہ اس کی کمر ٹوٹ گئی۔ دراصل وہی قافلہ کی قیادت کر رہا تھا۔ پھر گھوڑوں میں بھگدڑ مچ گئی، وہ اپنے شہ سواروں کو گرا کر بھاگنے لگے، اور مسلمانوں نے اس دلہن کو یعنی ازاذبہ کی بیٹی کو تیس دہقاتی بیگمات، سو خدمت گاروں اور خواصوں سمیت گرفتار کر لیا۔ علاوہ ازیں بے شمار بیش بہا قیمتی سامان ہاتھ لگا جس کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے۔[2] * اس معرکہ میں مسلمانوں نے وہ اسلوب بھی اپنایا جس میں جنگی حالات وظروف کے تقاضوں کے پیش نظر تبدیلی کی جا سکے۔ ہمارے سامنے جنگ کا جو منظر ہے اس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ معرکہ کے اوّل روز حملہ آور ہاتھیوں کی مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لیے ان پر تیروں کی بارش کرتے ہیں اور ان کی سونڈیں کاٹ دیتے ہیں، ہاتھی میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں تب تک شام سے آنے والی امدادی فوج مسلمانوں تک پہنچ جاتی ہے، یکے بعد دیگرے جماعت در جماعت کی شکل میں وہ میدان جنگ میں اترتی ہے تاکہ دشمن کو یہ چکما دیا جا سکے کہ مسلم فوج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پھر دوسرے دن دشمن کے گھوڑوں کو