کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 664
مسلمانوں نے پوری ہوشیاری کے ساتھ ایسی عسکری حکمت عملی کا مظاہرہ کیا جو جنگ کے تمام تر حالات وظروف کے موافق ہو سکے۔ چنانچہ واقعات وحوادث کے تخت پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ صلاحیت نمایاں طور سے دیکھی جا سکتی ہے کہ آپ نے آناً فاناً عام فوجی بھرتی، اجباری فوجی بھرتی اور تمام جنگی وسائل کا بھرپور انتظام کر دیا۔ اس معرکہ کو سر کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کرنے میں آپ نے پوری قوت لگا دی، عوام کے ساتھ منتخب دانش وروں اور اہل الرائے کی ایک بھاری جماعت بھی تیار کر لی اور سعد رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ بہترین شہ سواروں اور مسلح افراد کو جو بہادر اور عقل مند ہوں منتخب کرو۔ سعد رضی اللہ عنہ نے شرکاء بدر میں سے ستر (۷۰) سے زیادہ لوگوں کو اس معرکہ کے لیے منتخب کیا اور تین سو دس (۳۱۰) سے کچھ زیادہ ان صحابہ کو جو بیعت رضوان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے، نیز تین سو ایسے صحابہ کو جو فتح مکہ کے موقع پر شریک تھے، اور ابنائے صحابہ میں سے سات سو (۷۰۰) لوگوں کا انتخاب کیا اور انہی پر بس نہیں کیا، بلکہ تمام سرداران قبائل، اصحاب رائے، شرفاء، خطباء اور شعراء کو معرکہ قادسیہ میں شرکت کے لیے بلا بھیجا۔ اس طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے معرکہ کے لیے زیادہ سے مادی ومعنوی اسباب ووسائل اکٹھے کیے۔ * اس معرکہ کی تیاری میں ہمیں ایک ایسی جدت نظر آرہی ہے جسے قبل ازیں مسلمانوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ یہ کہ سعد رضی اللہ عنہ نے ’’صرار‘‘ میں ٹھہر کر اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ اپنا لشکر مکمل کر لیں، پھر عراق میں محاذ جنگ کی طرف آگے بڑھیں۔ نہیں ایسا نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ چار ہزار کی تعداد میں جو فوج تھی اسی کو لے کر آگے بڑھے اور بعد میں آکر ملنے والی فوج کو ملا کر کل سترہ ہزار افواج کو قادسیہ کے میدان جنگ میں اتار دیا۔ فوج کی تیاری کا یہ ایک نیا انداز تھا جسے دور فاروقی سے پہلے مسلمانوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ * خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، مثنی اور سعد رضی اللہ عنہما کے نام جو خطوط ارسال کرتے اس میں قادسیہ کے فیصلہ کن معرکہ کا نظری نقشہ بنا دیا کرتے تھے۔ اس اعتبار سے آپ پہلے مسلم قائد ہیں جو میدان جنگ کی جغرافیائی وماحولیاتی تحقیق کے لیے نظری نقشہ پر مشتمل خطوط پر اعتماد کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے سعد رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ جنگی اقدام سے پہلے تفصیلی خط لکھیں اور اس میں مسلم فوج کے ٹھہرنے کی جگہ کی ایسی منظر کشی کریں گویا کہ آپ انہیں آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مسلم افواج سے متعلق تمام باتوں سے صاف صاف آگاہ کرتے رہیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور عمر رضی اللہ عنہ کے نام تفصیلی خط لکھا اس میں جغرافیائی اعتبار سے دریائے عتیق اور قادسیہ کی خندق کے درمیان قادسیہ کا محل وقوع متعین کیا اور تفصیل سے لکھا کہ قادسیہ کے دائیں اور بائیں کیا کچھ ہے اور جس جگہ جنگ لڑی جائے گی اس کے اردگرد کا کیا ماحول ہے، نیز یہ کہ قادسیہ اور اس کے
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۹۱۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۹۱۔ [3] القادسیۃ، ص: ۲۰۴۔ [4] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۹۰۔ [5] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۴۸۰۔