کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 659
۲: فتح قادسیہ کے بعد فاروقی خطبہ: جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو فتح قادسیہ کی خبر ملی تو آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا، ان کے سامنے سورئہ فتح کی تلاوت کی اور فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ جب تک ہمیں خوشحالی میسر ہے سب کی ضرورتیں پوری کر دوں۔ اگر ہم اس سے عاجز رہے تو اسباب زندگی مہیا کرنے میں ہم ایک دوسرے کی مدد کریں، تاکہ سب لوگ کفاف کی زندگی گذاریں۔ میری دلی تمنا ہے کہ کاش تمہارے لیے جو کچھ میرے دل میں ہے تم لوگ اسے جان سکتے، میں تمہیں کوئی بات عملاً کر کے دکھانا چاہتا ہوں میں کوئی بادشاہ نہیں کہ تمہیں غلام بناؤں۔ میں اللہ کا ایک ادنیٰ سا بندہ ہوں، مجھے ایک امانت سونپی گئی ہے اگر میں نے اس میں پاک دامنی اپنائی یعنی رعایا کے مال میں خیانت نہ کی اور اسے تم کو پورا پورا دے دیا اور تمہیں شکم سیر وآسودہ کر لے گیا تو میری سعادت مندی ہوگی اور اگر اس امانت کے بہانے تم کو اپنے پیچھے دوڑایا اور اپنے گھر کا چکر لگوایا تو یہ میری بدبختی ہوگی۔ ایسی حالت میں میرے لیے راحت کم اور رنج والم زیادہ ہو گا۔ اس وقت میں چاہوں گا کہ گم نام رہوں، کوئی میرا ذکر کرے نہ کوئی طلب کہ میں مطلب برآری کے لیے خوش کیا جاؤں۔‘‘[1] ۳: مسلمانوں کے نزدیک وفاداری اور عدل پروری میں کوئی رخصت نہیں: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کے نام ایک دوسرا خط لکھا، جس میں عراق کے ان عرب ذمیوں کے بارے میں کارروائی کی تفصیل جاننا چاہی جنہوں نے مسلمانوں کی کمزوری اور ان کے مشکل حالات میں اپنا عہد و پیمان توڑ دیا تھا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے خط پڑھنے کے بعد لوگوں کو جمع کیا اور کہا: ’’جو شخص نفس پرست اور گناہ گار ہو گا وہ اپنے حق سے محروم ہو جائے گا اور خود نقصان اٹھائے گا اور جو شخص سنت کی پیروی اور شریعت کی پابندی کرے گا اور نیکو کاروں کے لیے اللہ کے پاس تیار کردہ انعاماتِ الٰہی کا طالب بن کر صراط مستقیم پر چلے گا وہ کامیاب ہو گا اور اپنا پورا پورا حق پائے گا، اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا(الکہف: ۴۹) ’’اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم وستم نہ کرے گا۔‘‘ فاتح دوراں اور قادسیہ کے مجاہدین کامیاب ہو چکے ہیں، ان کے پاس (زمیندار قسم کے) ذمی لوگ آئے ہیں جو اپنے عہد وپیمان پر قائم رہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں تمہاری کیا آراء ہیں جو کہتے ہیں کہ فارسی فوج نے ہمیں عہد توڑنے پر مجبور کیا تھا اور مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ کیا تھا اور کچھ ایسے ہیں جو فارسی فوج کو متہم تو نہیں کرتے، لیکن اپنے عہد پر باقی نہ رہے اور عراق سے نکل بھاگے اور کچھ ایسے ہیں جو اپنے عہد پر قائم رہے، عراق چھوڑ کر بھاگے بھی نہیں اور فارسیوں کو متہم بھی نہیں کرتے۔ جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو راضی برضا جزیہ
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۰۸۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۴۸۸۔ [3] القادسیہ، ص: ۲۶۶۔ التاریخ الإسلامي: ۱۰؍۴۸۸ [4] الطریق إلی المدائن ص: ۴۷۳، ۳۷۴۔