کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 658
ہی امیرالمومنین ہوں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھائی، کوئی بات نہیں ہے۔[1] : سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں معرکۂ قادسیہ کی بڑی اہمیت تھی، یہی وجہ تھی کہ آپ ہر روز برسر پیکار مسلمانوں اور جنگ کے بارے میں خبریں معلوم کرتے۔ آپ کسی دوسرے کو بھیج کر بھی وہاں کے حالات معلوم کر سکتے تھے ،لیکن مسلمانوں کے تئیں آپ کو ایسی فکر دامن گیر تھی کہ بذات خود ان کی حالت معلوم کرنے نکلتے۔ یہ تھی اپنی رعایا کے لیے شفقت و رحمت کی انتہا اور ذمہ داری کا شدید ترین احساس۔ : سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی غایت درجہ تواضع، آپ مژدہ فتح سنانے والے سوار کے ساتھ پیدل چلتے رہے اور جنگ کی تفصیلی حالت جاننے کے لیے بے تاب رہے، لیکن وہ سوار امیرالمومنین تک پہنچنے سے پہلے کسی کو تفصیلی حالت نہیں بتانا چاہتا تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ جو شخص اس سے مخاطب ہے اور تیز قدموں سے اس کے ساتھ چل رہا ہے وہی امیرالمومنین ہیں۔ اسے اس بات کا علم اس وقت ہوتا ہے جب مدینہ پہنچتا ہے اور لوگ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو امیرالمومنین کہہ کر السلام علیکم کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ہیں اسلاف امت کے بلند اخلاق کہ جن پر سارے مسلمان اپنی طویل تاریخ میں پوری دنیا میں اگر فخر کریں تو حق بجانب ہیں اور اگر اس کے ذریعہ سے دین اسلام کی عظمت پر دلیل قائم کریں تو غلط نہ ہو گا کہ اسی نے عدل وانصاف، رحمت وشفقت اور حزم و تواضع میں عمر رضی اللہ عنہ جیسے بے مثال انسانوں کو جنم دیا۔[2] جنگ قادسیہ کے دروس، مواعظ اور فوائد ۱: معرکۂ قادسیہ کی تاریخ اور مستقبل کی فتوحات میں اس کی تاثیر: معرکۂ قادسیہ کی تاریخ کی تعیین میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں ماہ شعبان ۱۵ہجری کی تاریخ زیادہ صحیح ہے۔[3] دنیا کی تاریخ میں لڑی جانے والی خون ریز جنگوں کی فہرست میں معرکۂ قادسیہ سرفہرست ہے۔ یہ جنگ سچے مومنوں کو مختلف اعتبار سے ربانی تمکین وحکومت عطا کرنے کی ایک مظہر تھی۔ قادسیہ فتح کیا ہوا کہ عراق اور اس کے بعد فارس میں فتوحات کے دروازے کھل گئے، یہیں سے ایک طرف مسلمانوں کے غلبہ و مدد کا سلسلہ دراز ہوا اور دوسری طرف جنگی وسیاسی ہر دو اعتبار سے ساسانی اقتدار اور مذہبی اعتبار سے مجوسی حکومت کے زوال کا آغاز ہوا۔ دین اسلام بلاد فارس اور اس کے اردگرد میں تیزی سے پھیلنے لگا، جنگ قادسیہ میں مسلمانوں نے مجوسی غرور واقتدار کی کمر اس طرح توڑ دی کہ وہ دوبارہ اٹھنے کے قابل نہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ معرکۂ قادسیہ کو انسانی تاریخ میں لڑی جانے والی خون ریز وفیصلہ کن جنگوں میں سرفہرست رکھا گیا۔[4]
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۰۸۔ [2] التاریخ الاسلامی: ۱۰/ ۴۸۱۔