کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 652
جائے تاکہ پچھلے معرکوں کی ان پسپائیوں کا پورا پورا بدلہ لیا جا سکے جو فارسی فوج کی معنوی قوت توڑنے کا اہم سبب بنی تھی۔ چنانچہ بہادر و جانباز مسلمانوں کے میدان جنگ میں نمودار ہونے کے بعد فارسی فوج کا کوئی بھی پہلوان نہ تو مقابلہ کے لیے سامنے آیا اور نہ دشمن کو پیچھے دھکیلنے کے لیے۔ رستم نے اپنی فوج کو تیرہ صفوں میں بانٹ دیا، قلب اور میمنہ ومیسرہ متعین کیا، ادھر قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے جنگ چھیڑ دی دوسرے مرد میدان اور جانباز مجاہدین نے بھی میدان جنگ کو گرما دیا۔ حالانکہ سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی منصوبہ بندی کے مطابق ابھی تکبیر کا نعرہ نہیں لگایا تھا تاہم آپ نے قعقاع رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو جنگ جاری رکھنے کی اجازت دے دی، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا مانگی۔ پھر جب آپ نے تین تکبیریں کہیں تو جنگ کے تمام افسران اور لشکر کے تمام مجاہدین باقاعدہ جنگ پر اتر آئے۔ یہ تین صفوں میں تھے، پہلی صف میں تیر انداز، دوسری صف میں شہ سوار اور تیسری صف میں پیدل فوج تھی، اس رات کی جنگ کافی بھیانک اور سخت تھی۔ شروع رات سے صبح تک کچاکچ تلواریں چلتی رہیں، دونوں افواج کسی سے بات کرنے کو تیار نہ تھیں، صرف چیخ پکار کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں۔ اسی لیے اس رات کو ’’لیلۃالہریر‘‘ کہا جاتا ہے۔[1] مسلمان سخت مقابلہ کے اندیشہ کے پیش نظر آپس میں ایک دوسرے کو پامردی اور جنگ میں پوری قوت جھونک دینے کی نصیحت کر رہے تھے۔ ان میں سے بعض کے اقوال تاریخی مصادر میں ملتے ہیں۔[2] مثلاً درید بن کعب نخعی نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہا: آج مسلمانوں نے دشمن کو پست کرنے کا عزم کر لیا ہے، اس لیے آج رات تم جہاد فی سبیل اللہ اور رضائے الٰہی کی طلب میں ان سے آگے بڑھ جاؤ، کہ آج کی رات سبقت لے جانے ہی کے حساب سے اللہ کے یہاں ثواب ملے گا۔ شہادت کی موت مرنے میں ان سے مقابلہ کرو اور شہادت کی موت سے روح کو سکون دو، کیونکہ اگر تم دنیا میں کامیابی کے طالب ہو تو یہی تم کو بری موت سے نجات دینے والی ہے، ورنہ آخرت کا فیصلہ تو تمہاری نیتوں پر ہے۔ اور اشعث بن قیس نے کہا: اے عرب کے لوگو! آج کے دن یہ قوم (دشمن) موت پر تم سے زیادہ جری نہ ہونے پائے اور نہ تم سے زیادہ دنیا سے بے زار ہونے پائے، آل و اولاد کو لے کر مقابلہ کرو، قتل سے مت گھبراؤ، بے شک شرفاء و پاک باز لوگ ہی اللہ کے راستے میں قتل ہو جانے کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ قتل شہادت کی موت ہوگی۔[3] ’’لیلۃ الہریر‘‘ میں قبیلہ جعفی کے بالمقابل فارسی فوج کا ایک مسلح دستہ تھا، انہوں نے اس فارسی فوج پر حملہ کیا تو دیکھا کہ ان کی تلواریں کند پڑ گئی ہیں اور کام نہیں کرتیں تو واپس لوٹنے لگے۔ حمیضہ بن نعمان بارقی نے ان کو آواز دے کر کہا: کیا بات ہے، کیوں واپس ہو رہے ہو؟ لوگوں نے بتایا کہ تلواریں کام نہیں کرتیں۔ حمیضہ نے کہا:
[1] تاریخ الطبری: ۴؍۳۸۱۔