کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 649
اس کی آنکھ میں نیزہ مارتا ہوں یا تم نیزہ مارو اور میں سونڈ کاٹتا ہوں۔ ربیل نے کہا: میں تلوار مارتا ہوں اور حمال نے ہاتھی پر ایسے وقت میں حملہ کیا جب کہ اپنے گرد گھیرا ڈالے ہوئے لوگوں کا نظارہ کرنے میں مشغول تھا۔ اس کا سوار صرف اس بات سے ڈر رہا تھا کہ کہیں مسلمان ہاتھی کے تنگ کو کاٹ نہ دیں، جس طرح کہ معرکہ کے پہلے دن انہوں نے یہی تدبیر اپنائی تھی اور صرف فیل بانوں کو نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ حمال نے ہاتھی کی آنکھ میں تاک کر نیزہ مارا جس سے وہ پشت کے بل ڈھیر ہوگیا۔ پھر دوبارہ کھڑا ہونا چاہتا تھا کہ ربیل بن عمرو نے اس کی سونڈ پر تلوار کا زور دار وار کیا، اور اس کے سونڈ کو مستک سے الگ کر دیا۔ پھر فیل بان نے ان کو دیکھا اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا جو اسلحہ تھا اسی سے اس کی ناک اور ماتھے کو نشانہ بنایا لیکن ربیل اور حمال اس سے بچ نکلے۔ دونوں ہاتھی خنزیر کی طرح چیخنے چلانے لگے، چونکہ ہاتھیوں کے دوسرے غول بھی انہی دونوں ہاتھیوں کے تابع تھے اس لیے جب ان دونوں نے بلا تفریق فارسی فوج کو بھاگتے ہوئے روندنا شروع کیا تو ان کے پیچھے سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے اور فارسی فوج کو روندنے لگے اور ایک طوفان برپا کر دیا۔ پھر تمام ہاتھی دریائے عتیق کے اس پار مدائن کی طرف بھاگ گئے اور ان پر جتنے فوجی سوار تھے سب ہلاک ہوگئے۔[1] جب میدان ہاتھیوں سے خالی ہوگیا تو دونوں افواج پھر آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں اور لڑائی کا زور دار رن پڑا۔ فارسی لشکر کے پاس طاقتور اور تازہ دم کمک تھی اس لیے جیسے جیسے وہ اپنی قوت کمزور اور لشکر میں کمی دیکھتے یزدگرد کو اطلاع بھیجتے اور وہ وہاں سے کمک روانہ کرتا۔ اس طرح تیسرے دن کا یہ معرکہ برابر کی جنگ پر اختتام کو پہنچا۔[2] الف: عمرو بن معدیکرب کی بہادری: عمرو بن معدیکرب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ: میں ہاتھی اور اس کے اردگرد کے سواروں پر سامنے سے حملہ آور ہوتا ہوں تم لوگ مجھے اونٹنی نحر کرنے سے کچھ بھی زیادہ وقت کے لیے تنہا نہ چھوڑنا (یعنی میرے پیچھے ہی تم لوگ بھی حملہ کر دینا)، اگر تم نے مجھ تک پہنچنے میں ذرا بھی تاخیر کی تو ابوثور سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ پھر تم میں ابو ثور جیسے لوگ کہاں ہوں گے۔ اگر تم مجھے پا لیتے ہو تو ایسی حالت میں پاؤ گے کہ میرے ہاتھ میں تلوار ہوگی۔ اتنا کہہ کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور گردوغبار میں ایسے غائب ہوئے کہ نظر نہ آئے۔ آپ کے ساتھیوں نے کہا: اب کیا دیکھ رہے ہو؟ کیا تم اس لائق نہیں ہو کہ اسے پالو، اگر تم نے اسے ضائع کر دیا تو گویا مسلمانوں نے اپنے عظیم شہ سوار کو ضائع کر دیا، پھر تمام ساتھی ایک ساتھ حملہ آور ہوئے اور مشرکین ابو ثور کو ایسی حالت میں چھوڑ بھاگے کہ وہ آپ کو زمین پر گرا کر نیزہ مار چکے تھے اور تلوار ان کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان پر وار کر رہے تھے اور آپ کا گھوڑا زخمی ہو چکا تھا۔ جب فارسی آپ کو چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اور آپ کو اپنے ساتھی نظر آئے تو ایک فارسی فوجی کے گھوڑے
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۷۵۔