کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 645
وقد کنت ذامال کثیر واخوۃ فقد ترکونی واحدً الا أخالیا ’’میں کافی دولت مند اور بھائیوں والا تھا، لیکن ان سب نے مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے اور اب میرا کوئی بھائی نہ رہا۔‘‘ وللہ عہد لا أخیس بعہدہ لئن فیرجت ألا أزور الحوانیا ’’میں نے اللہ سے عہد وپیمان کیا ہے کہ اس کے عہد سے نہیں پھروں گا، اگر میرے لیے مے خانوں کے دروازے کھول بھی دیے جائیں تو بھی میں ادھر کا رخ نہ کروں گا۔‘‘ سلمیٰ نے جب یہ اشعار سنے تو کہنے لگیں: میں نے استخارہ کیا ہے، تمہارے وعدہ پر مجھے یقین ہے اور پھر ان کی بیڑیاں کھول دیں اور کہا: لیکن میں گھوڑا نہیں دے سکتی اور پھر اپنے حجرے کی طرف چلی گئیں۔ ادھر ابومحجن گھوڑے کے پاس گئے، اس کی لگام ہاتھ میں لی اور قادسیہ کی خندق کی طرف کھلنے والے قلعہ کے دروازے سے گھوڑے کو باہر لائے، اس پر سوار ہوئے اور ایڑ لگائی اور جب میمنہ کے برابر پہنچے تو بلند آواز سے نعرہ تکبیر کہا اور فارسی فوج کے میسرہ پر زبردست حملہ کیا اور دونوں افواج کے درمیان تیغ زنی، نیزہ بازی اور دیگر اسلحہ کے جوہر دکھائے، مسلمان انہیں دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے اور بعض لوگ کہنے لگے: زین کے ساتھ لڑ رہا ہے؟ سعید اور قاسم نے کہا: نہیں بلکہ ننگی پیٹھ لڑ رہا ہے۔ پھر مسلم صف کے پیچھے سے گھوم کر میسرہ میں آگئے اور بلند آواز سے تکبیر کا نعرہ مارتے ہوئے دشمن کے میمنہ پر دھاوا بول دیا اور دونوں افواج کے درمیان تیغ زنی ونیزہ بازی کے بے مثال جوہر دکھاتے رہے، پھر ذرا پیچھے ہٹے، مسلم صف کے پیچھے سے گھوم کر قلب سے ہوتے ہوئے لوگوں کے سامنے آئے اور دشمن کے قلب میں گھس کر خوب زبردست تیغ زنی ونیزہ بازی کی اور مسلمان انہیں دیکھ کر تعجب کرنے لگے کہ آخر یہ کون سا آدمی ہے کیونکہ انہوں نے ابو محجن رضی اللہ عنہ کو نہ دن میں دیکھا تھا اور نہ پہلے سے وہ ان سے متعارف تھے۔ بعض نے کہا کہ ہاشم رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے پہلے دستہ کا کوئی فوجی لگ رہا ہے، یا شاید خود ہاشم رضی اللہ عنہ ہیں۔ ادھر سعد رضی اللہ عنہ پیٹ کے بل جھک کر اپنے بالاخانے سے مسلم فوج کا جائزہ لے رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر کہنے لگے: اگر ابو محجن قید نہ ہوتا تو میں کہتا کہ ابو محجن ہے اور یہ میرا بلقاء گھوڑا ہے۔ اس طرح لوگ آپس میں مختلف طرح کی باتیں کرتے رہے اور جب آدھی رات گزرنے کو ہوئی تو فارسی فوج نے جنگ بند کر دی اور مسلمان بھی پلٹ آئے۔ ابو محجن رضی اللہ عنہ بھی لوٹ کر وہیں آگئے جہاں سے گئے تھے۔ اور اپنے دونوں پاؤں میں بیڑیاں ڈال لیں اور یہ اشعار کہنے لگے: لقد علمت ثقیف غیر فخر بأنا نحن أکرمہم سیوفا