کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 644
تھے اس لیے اپنے اونٹوں کو جدید جنگی ہتھیار کی شکل میں استعمال کر کے دشمن کے ساتھ کامیاب چال چلی اور یہ چال ایک کامیاب جنگی تدبیر ثابت ہوئی جس نے دشمن کے گھوڑوں کو خوف زدہ کردیا اور گھوڑوں نے اپنے شہ سواروں کو پیٹھ سے پھینکنا شروع کر دیا۔ لہٰذا آج کے اس بحرانی دور میں ضروری ہے کہ مسلمان پہلے عقیدہ و روحانیت کی تعمیر و ترقی کے بعد جدید جنگی ومادی ایجادات میں بھی دوسروں سے آگے بڑھ نکلیں۔ ش: ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ معرکہ میں: معرکہ یوم اغواث میں نصف رات تک جنگ جاری رہی اور اس رات کا نام ’’لیلۃ السواد‘‘ (سیاہ رات) رکھا گیا، پھر جب دونوں افواج ایک دوسرے سے پیچھے کھسکتی نظر آئیں تو اس رات جنگ بند ہو گئی، اس سے مسلمانوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ شہداء کو وادی مشرق میں (جو ان کے لیے قبرستان تھی) اور زخمیوں کو عذیب میں منتقل کرنے لگے جہاں عورتیں ان کی مرہم پٹی اور تیمارداری کرتی تھیں۔ اس رات کے معرکہ میں ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ پہلی مرتبہ شریک ہوئے۔1 امیر لشکر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف سے گرفتار کر کے انہی کے قلعہ میں قید کر دیے گئے تھے۔ شام ہوئی تو ابومحجن رضی اللہ عنہ ، سعد رضی اللہ عنہ کے پاس بالاخانے میں گئے، ان سے معافی مانگی اور غلطی در گزر کرنے کی سفارش کرنے لگے، لیکن سعد رضی اللہ عنہ نے معافی دینے سے انکار کر دیا اور نیچے واپس لوٹا دیا۔ ابومحجن رضی اللہ عنہ چار و ناچار نیچے اتر آئے، سلمیٰ بنت خصفہ کے پاس گئے اور کہنے لگے: اے سلمیٰ! اے آل خصفہ کی بیٹی! کیا تم میرے اوپر احسان کر سکتی ہو؟ خصفہ نے پوچھا: وہ کیا؟ ابومحجن رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے بیڑیوں سے آزاد کر دو اور سعد کا سیماب صفت بلقاء گھوڑا عاریتاً دے دو۔ اللہ کی قسم! اگر اس نے مجھے صحیح سالم بچا لیا تو میں خود لوٹ کر تیرے پاس آؤں گا اور بیڑیاں اپنے پاؤں میں ڈال لوں گا۔ سلمیٰ نے کہا: میرا اس سے کیا تعلق، میں ایسا نہ کر پاؤں گی۔ ابو محجن رضی اللہ عنہ مایوس ہو کر یہ اشعار پڑھتے ہوئے اپنے قید خانہ میں واپس لوٹ آئے: کفی حزنًا أن تلتقی الخیل بالقنا وأترک مشدودًا علی وثاقیا ’’میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی غم نہیں ہے کہ شہ سوار نیزے بازیاں کر رہے ہوں اور میں پا بہ زنجیر پڑا رہوں۔‘‘ إذا قمت عنانی الحدید واغلقت مصارع دونی قد تصم المنادیا ’’جب میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں تو زنجیر اٹھنے نہیں دیتی اور دروازے اس طرح بند کر دیے جاتے ہیں کہ پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتا ہے۔‘‘
[1] القادسیۃ، ص: ۱۵۴، أحمد عادل کمال [2] الخنساء أم الشہداء، عبدالمنعم الہاشمی، ص: ۹۸۔ [3] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۴۶۔