کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 640
زمین پر گر پڑے۔ مجوسی فوراً مر گیا لیکن علباء کھڑے نہ ہو سکے اور کوشش کرتے رہے کہ اپنی انتڑیوں کو پیٹ میں واپس ڈال لیں، پھر وہ بھی ممکن نہ ہو سکا۔ اسی دوران میں ایک مجاہد کا ادھر سے گزر ہوا، علباء نے اسے پکارا اور کہا میری انتڑیوں کو میرے پیٹ میں رکھ کر میری مدد کرو۔ چنانچہ اس نے انتڑیاں علباء کے پیٹ میں ڈال دیں اور علباء دوبارہ نفس کو دباتے ہوئے پوری جرأت کے ساتھ فارس کی فوج کی طرف لپکے، اپنے پیچھے مجاہدین کی صفوں کی طرف توجہ نہ دی لیکن ابھی اپنی جگہ سے تقریباً تیس ہاتھ آگے گھسٹ کر گئے ہوں گے کہ جان جان آفرین کے حوالے کر دی۔ اس وقت آپ کی زبان پر یہ اشعار تھے: أرجو بہا من ربنا ثوابًا قد کنت ممن أحسن الضرابا ’’میں بہترین تلوار زنی کرنے والوں میں سے ایک تھا اس سے میں اپنے رب کی رضا وخوشنودی کا طالب ہوں۔‘‘ ج: اَعرف بن اعلم عقیلی: اہل فارس کا ایک اور فوجی میدان میں آیا اور کہا: کون ہے جو مجھ سے مقابلہ کرے گا؟ مسلمانوں کی طرف سے اعرف بن اعلم عقیلی مقابلہ میں اترے اور اسے قتل کر دیا۔ پھر ایک دوسرا فارسی پہلوان آیا، آپ نے اسے بھی چت کر دیا، پھر کئی فارسی فوج نے انہیں گھیر لیا اور یکجائی حملہ کر کے انہیں زیر کرنے لگے، اس دوران ہتھیار ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور گر گیا اور وہ دشمن کے ہاتھ لگ گیا، پھر بھی آپ ان کے چہروں پر دھول اڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں میں واپس آگئے۔[1] د: خنساء رضی اللہ عنہا کے چاروں بیٹوں کا فداکارانہ موقف: اس معرکہ میں خنساء کے چاروں بیٹوں نے فداکارانہ جوہر دکھائے، وہ سب پورے جوش و خروش سے میدان کارزار میں کود پڑے، ان میں سے ہر ایک نے معرکہ میں شرکت کرتے وقت جوش وجذبات کو ابھارنے والے ایسے ترانے گائے جن سے خود انہیں اور دیگر بھائیوں کو دلی تقویت ملی، پہلے بیٹے کے اشعار یہ تھے: یا إخوتی ان العجوز الناصحۃ قد نصحتنا إذ دعتنا البارحۃ ’’اے میرے بھائیو! رات کے وقت جب ہم کو خیر خواہ بوڑھی ماں نے بلایا تو نصیحت کی۔‘‘ مقالۃ ذات بیان واضحۃ فباکروا الحرب الضروس الکالحۃ