کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 638
ہو جائے تب دوسری جماعت اس کے پیچھے حرکت کرے۔ قعقاع رضی اللہ عنہ پہلی جماعت میں آنے والوں کے ساتھ آئے اور پھر یکے بعد دیگرے جماعتیں آتی رہیں۔ قعقاع رضی اللہ عنہ جب جب افق پر نگاہ ڈالتے ایک جماعت آتی ہوئی نظر آتی۔ آپ نعرۂ تکبیر بلند کرتے اور سارے مسلمان نعرہ تکبیر کہتے اور جوش و خروش کے ساتھ دشمن سے نبردآزما ہوتے۔ بلا شبہ مسلم مجاہدین کی روحانی غیرت اور ایمانی شعور کو بلند وپختہ کرنے کی یہ ایک کامیابی تدبیر تھی۔ کیونکہ جس لشکر میں تیس ہزار فوجی موجود ہوں اس کی مدد کے لیے صرف ایک ہزار فوج کی آمد کوئی معنی نہیں رکھتی تھی، لیکن یہ اللہ کا بہت بڑا فضل و کرم رہا کہ اس نے قعقاع رضی اللہ عنہ کی ایک ایسی انوکھی تدبیر کی طرف رہنمائی کی جس نے قلت مدد کے احساس کو زائل کر دیا اور مسلمانوں کے عزم وحوصلے بلند کر دیے۔ قعقاع رضی اللہ عنہ نے امدادی کمک کی آمد کی خوشخبری سناتے ہوئے کہا: ’’اے لوگو! میں ایسے جانبازوں کو لا رہا ہوں کہ اگر وہ تم تک پہنچ گئے اور قلت تعداد کے باوجود تمہاری پامردی وجرأت کا انہیں علم ہوگیا تو ان کا کمزور ترین فرد بھی تم سے آگے بڑھ نکلنا چاہے گا اور ان کی کوشش ہوگی کہ اس مقام فضیلت کو تم سے لے اڑیں، تم مجھے جیسا کرتے ہوئے دیکھو ویسا ہی کرو۔ پھر آگے بڑھے اور دشمن کو یہ کہتے ہوئے للکارا: ’’کون ہے جو مجھ سے مقابلہ کرے گا؟‘‘ یہ سن کر لوگ ان کے بارے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسی داد تحسین دینے لگے، کہا: جس فوج میں ان جیسے لوگ ہوں وہ شکست سے دوچار نہیں ہو سکتی۔ اور سب مطمئن نظر آنے لگے، قعقاع رضی اللہ عنہ کی للکار پر ذوالحاجب[1]جب سامنے آیا تو قعقاع رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟[2] اس نے غراتے ہوئے جواب دیا: میں بہمن جاذویہ ہوں۔ اتنا سننا تھا کہ قعقاع رضی اللہ عنہ کے دل میں معرکہ جسر کے موقع پر اسی کی وجہ سے مسلمانوں کو پہنچنے والی دل خراش مصیبت کی یاد تازہ ہوگئی اور غیرت ایمانی کی رگ پھڑک اٹھی۔ دھاڑے اور کہا: آج ابوعبید، سلیط اور شہدائے جسر کے خون کا بدلہ لے کر رہوں گا۔ مقابل اگرچہ فارس کا ایک عظیم قائد اور سورما مانا جاتا تھا، لیکن قعقاع رضی اللہ عنہ کی با رعب آواز سے اس کا دل دہلنا ضروری تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قعقاع رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا تھا: لشکر میں قعقاع کی ایک با رعب آواز ایک ہزار فوجیوں کی قوت پر غالب ہے۔[3] پھر بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک فرد ان کے سامنے ٹھہر پاتا، اگرچہ وہ بہادری اور ثبات قلبی میں کیسی بھی شہرت رکھتا تھا؟ اور اسی لیے بغیر کسی تاخیر کے قعقاع رضی اللہ عنہ نے اسے اس کی فوج کے سامنے زمین پر ڈھیر کر دیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین پر اس کی لاش گر جانے کا زبردست اثر یہ ہوا کہ فارس کے دل دہل گئے اور مسلمانوں کے عزم وحوصلے بلند ہوگئے، کیونکہ وہ فارس کے بیس ہزار جنگجوؤں کا سپہ سالار تھا۔ قعقاع رضی اللہ عنہ نے دوسری آواز لگائی اور کہا: کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا؟ مقابلہ میں فارس کے دو جوان
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۶۶۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۶۷، التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۳۶۷۔