کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 637
طرح تم ایک باپ کی اولاد ہو اسی طرح ایک ماں کی بھی اولاد ہو۔ وہ ماں جس نے نہ تو تمہارے باپ کے ساتھ خیانت کی ہے اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا ہے۔ جاؤ! جنگ میں کود پڑو، شروع سے آخر تک ڈٹے رہو۔‘‘ یہ سن کر وہ سب تیزی سے میدان جنگ کی طرف دوڑ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ اس کے بعد ماں نے آسمان کی طرف دعا کے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور کہنے لگی: ’’اے اللہ! میرے بیٹوں کا دفاع کرنا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے جنگ میں بہادری کے خوب خوب جوہر دکھائے اور آخر میں اپنی ماں کے پاس صحیح سالم واپس لوٹے۔ کسی کو کوئی زخم نہ آیا۔[1] یہ ہے جنگ قادسیہ کے پہلے دن خواتین اور خاص کر عمر دراز ضعیف خواتین کا ایمانی جوش و جذبہ۔ یوم اغواث: جنگ قادسیہ کے دوسرے دن کو ’’یوم اغواث‘‘ کہا جاتا ہے۔ یوم اغواث کی رات میں قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شامی فوج کا ایک دستہ قادسیہ میں آ پہنچا۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے امیر شام ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ عراق کی جو فوج شام گئی تھی اسے معرکہ قادسیہ میں مسلمانوں کی مدد کے لیے عراق واپس بھیج دیں۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئی ہوئی عراقی فوج کو واپس بھیج دیااور خالد رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس باقی رکھا تاکہ وقت ضرورت ان سے کچھ مدد لے سکیں اور قادسیہ کو بھیجی جانے والی اس فوجی کمک کا سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ یہ عراقی فوج جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی امارت میں عراق سے شام آئی تھی اس وقت اس کی تعداد نو ہزار (۹۰۰۰) تھی، لیکن اب عراق واپس ہونے والوں کی تعداد صرف چھ ہزار (۶۰۰۰) تھی۔ ان میں سے ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار مجاہدین پر مشتمل فوجی دستہ کو مقدمہ کی حیثیت سے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی قیادت میں قادسیہ روانہ کیا۔[2] الف: قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کے بہادرانہ مواقف: قعقاع رضی اللہ عنہ اپنے مقدمہ کو لے کر تیزی سے آگے بڑھے اور یوم اغواث کی صبح ہوتے ہوتے قادسیہ پہنچ کر اسلامی فوج سے آملے۔ آپ نے قادسیہ آمد کے دوران ایک تدبیر سوچی کہ جس سے مسلمانوں کی قوت دوبالا ہوتی نظر آئے۔ چنانچہ آپ نے اپنے لشکر کو دس دس مجاہدین کی جماعت بنا کر سو (۱۰۰) حصوں میں تقسیم کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ سب یکے بعد دیگرے آگے بڑھیں، یعنی جب دس مجاہدین کی ایک جماعت نظروں سے اوجھل
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۰/ ۴۵۲۔ [2] الاستیعاب ۲۸۷، نساء، القادسیۃ، ص: ۱۴۶، ۱۴۷۔