کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 636
مجاہدین کو موقع مل گیا کہ ’’عذیب‘‘ جا کر اپنے اہل وعیال کی خیریت معلوم کر سکیں۔[1] و: خنساء بنت عمرو رضی اللہ عنہا پر سکون رات میں اپنے بیٹوں کو جنگ پر ابھارتی ہیں: ’’عذیب‘‘ میں مسلم خواتین کی بھیڑ میں دور جاہلیت و اسلام بنو سلیم کی شاعرہ خنساء بنت عمرو رضی اللہ عنہا اپنے چار بیٹوں کے ساتھ تشریف فرما ہیں، وہ چاروں بیٹے چار فرد ہی نہیں بلکہ کامل مرد میدان ہیں۔ یہ خاتون انہیں نصیحت کرتی ہے اور جنگ پر جانے کے لیے ان الفاظ میں ابھارتی ہے: ’’تم خوشی خوشی اسلام لائے ہو، اپنی مرضی سے ہجرت کی ہے، تم جانتے ہو کہ اللہ نے کفار سے جنگ کرنے کا کتنا بڑا ثواب مقرر کیا ہے، پھر بھی آج سن لو کہ اس دنیائے فانی سے آخرت کی زندگی بہتر ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(آل عمران: ۲۰۰) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر کرو اور مقابلے میں جمے رہو اور مورچوں میں ڈٹے رہو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘ اگر بخیر وعافیت تمہیں صبح میسر ہوتی ہے تو سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے اور اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے دشمن سے جنگ پر نکل جاؤ اور جب دیکھو کہ جنگ اپنے شباب پر ہے، اس کے شعلے بھڑکنے لگے ہیں اور وہ گردوپیش کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے تو معرکہ کی اس گرم بھٹی میں کود پڑو، اور فوج کے زبردست ٹکراؤ میں دشمن کے قائد اعلیٰ پر مردانہ وار حملہ کرو، تم دنیا میں اموال غنیمت سے سرفراز ہوگے اور دارالخلد آخرت میں سرخروئی نصیب ہوگی۔‘‘ چنانچہ اپنی ماں کی نصیحت کو قبول کرتے ہوئے اس کی بات کو دل سے لگا کر چاروں بیٹے نکل پڑے اور صبح سویرے ہی وہ میدان جنگ میں اپنے مقامات پر نظر آنے لگے۔[2] ز: قبیلہ نخع کی ایک خاتون اپنے بیٹوں کو جنگ میں شرکت کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے: قبیلہ نخع کی ایک خاتون تھیں ان کے چار بیٹے تھے، وہ سب اس دن جنگ میں شریک ہوئے، معرکے کے دوسرے دن صبح کی پو پھوٹتے ہی انہوں نے اپنے بیٹوں کو مخاطب کر کے کہا: ’’تم خوشی خوشی اسلام لائے اور اس پر جمے رہے اور ہجرت کی، اگرچہ مدینہ ہجرت نہیں کی۔ تم اپنے شہروں پر بوجھ نہ تھے کہ اس نے تمہیں نکال دیا، نہ قحط زدہ تھے کہ یہاں آئے۔ تم اپنی عمر دراز ضعیف ماں کو لے کر یہاں لائے ہو اور اسے اہل فارس کے سامنے ڈال دیا ہے۔ سنو! اللہ کی قسم جس
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۴۵۱۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۴۵۲۔