کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 63
عمر رضی اللہ عنہ اپنے بھائی کے اسلام کی حفاظت اور مکہ لوٹ جانے کے بعد مشرکین کی سخت آزمائش میں واقع ہونے کے خوف کے پیش نظر اپنی نصف جائیداد کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ لیکن عیاش رضی اللہ عنہ پر اپنی ماں کی محبت اور قسم پورا کرنے کا جذبہ غالب ہے۔ اسی لیے انہوں نے ٹھان لی کہ وہ مکہ جائیں گے اور اپنی ماں کی قسم پوری کریں گے۔ اور وہاں جو ان کا مال ہے اسے لے کر واپس آئیں گے۔ ان کی پاک دامنی اس بات سے انکار کرتی تھی کہ اپنے بھائی عمر کی جائیداد لے لیں، اور مکہ میں ان کا اپنا مال باقی رہے جس کو کسی نے ہاتھ نہ لگایا ہو۔ جب کہ عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ اس سے بلند تھی۔ گویا کہ آپ اس برے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے جس سے مکہ لوٹنے کے بعد عیاش دوچار ہونے والے تھے۔ اور جب آپ ان کو مطمئن کرنے سے عاجز آگئے تو اپنی بہترین نسل والی فرماں بردار اونٹنی دے دی۔ پھر آگے چل کر عیاش کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس بے وفائی کی مشرکین کی طرف سے عمر رضی اللہ عنہ نے توقع کی تھی۔ [1] مسلمانوں میں یہ بات عام ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے جو آزمائے گئے اور جاہلی سماج میں زندگی گزارنی شروع کردی، ان کے بارے میں کسی سفارش اور فدیہ کو قبول نہیں کرے گا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ (الزمر:۵۳) ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔‘‘ جوں ہی یہ آیات نازل ہوئیں فوراً سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے دونوں قلبی بھائیوں یعنی عیاش اور ہشام رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ دونوں کفرستان کو چھوڑنے میں دوبارہ اپنی نئی کوشش شروع کریں۔ کتنی عظیم خوبی تھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اندر، اپنے بھائی عیاش کے ساتھ پوری کوشش کی اور مدینہ نہ چھوڑنے کے لیے ان کو اپنی نصف جائداد دینے کی پیش کش بھی کی، ان کو خطرہ کی حالت میں بھاگ نکلنے کے لیے اپنی اونٹنی بھی دی، ان تمام چیزوں کے باوجود نہ تو اپنے بھائی سے ناراض ہوئے، نہ ان سے قطع تعلق کیا کہ انہوں نے مخالفت کی تھی، اور آپ رضی اللہ عنہ کی نصیحت ماننے سے انکار کر دیا تھا، اور آپ رضی اللہ عنہ کے مشورہ کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ بس آپ پر صرف اپنے بھائی کے متعلق محبت اور وفاداری کا احساس غالب تھا۔ اسی وجہ سے جوں ہی مذکورہ
[1] مکہ کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔ [2] الہجرۃ النبویۃ المبارکۃ، ص: ۱۳۱ [3] التربیۃ القیادیۃ: ۲/ ۱۵۹ [4] السیرۃ النبویۃ عرض وقائع وتحلیل احداث/ الصلابی، ص: ۵۱۲