کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 626
سویرے اپنے لشکر کو تیار کیا، امراء کو مقرر کیا اور ہر دس آدمیوں پر ایک امیر مقرر کیا۔ جنگی علم ان مبارک ہستیوں کے ہاتھوں میں دیے جنہیں اسلام لانے میں سبقت حاصل تھی۔ مقدمہ جیش، ساقہ اور میمنہ ومیسرہ کو ترتیب دیا، گشتی دستے بھی تیار کیے اور کیل کانٹے سے لیس ہو کر پوری تیاری کے ساتھ قادسیہ میں داخل ہوئے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو اس طرح ترتیب دیا تھا: مقدمہ: اس پر زہرہ بن حویہ کو مقرر کیا۔ میمنہ: اس پر عبداللہ بن معتم کو مقرر کیا۔ میسرہ: اس پر شرحبیل بن سمط کندی ازران کے نائب خالد بن عرفطہ کو مقرر کیا۔ ساقہ: اس پر عاصم بن عمرو کو مقرر کیا۔ طلائع (گشتی دستے): ان پر سواد بن مالک کو ذمہ دار بنایا۔ مجروہ (بے قاعدہ فوج): اس پر سلمان ربیعہ باہلی کو مقرر کیا۔ الرجالہ (پیدل فوج): اس پر حمال بن مالک اسدی کو مقرر کیا۔ شہ سوار فوج: اس پر عبداللہ بن ذی سہمین حنفی کو مقرر کیا۔ منصب قضاء: اس پر عبدالرحمن بن ربیعہ باہلی کو مقرر کیا۔ کاتب جیش (منشی) کے لیے زیاد بن ابی سفیان کو اور فوج کی رسد وغیرہ کی بندوبست نیز ان میں تذکیر ونصیحت کے لیے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو ذمہ دار بنایا۔ واضح رہے کہ امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر فوج کو اس طرح منظم کیا گیا تھا۔[1] اس تنظیم و ترتیب کے بعد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مسلمانوں میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور خطبہ کا آغاز قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت سے کیا: ﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ(الانبیاء: ۱۰۵) ’’اور بلاشبہ یقینا ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ بے شک یہ زمین، اس کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے۔‘‘ اور حفاظ قرآن سے کہا کہ سورئہ انفال کی تلاوت شروع کریں اور جب حفاظ تلاوت پوری کر چکے تو دیکھا کہ مسلمانوں کے دل کشادہ ہو چکے ہیں، ان کی آنکھوں میں چمک آگئی ہے اور اطمینان قلبی کی بارش ہو چکی ہے۔ پھر ظہر کی نماز پڑھی گئی اور امیر لشکر سعد رضی اللہ عنہ نے لشکر کو حکم دیا کہ چوتھی تکبیر کے بعد جنگ شروع کر دیں اور زبان
[1] گویا وہ ہاتھی موجودہ دور کی بکتر بند گاڑیوں کے کام آتے تھے۔ (مترجم) [2] الفن العسکری الإسلامی، ص: ۲۵۵۔