کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 621
شاہ فارس یزدگرد نے یہ سن کر کہا: ’’میں نے دنیا میں تم سے زیادہ بدبخت، تم سے زیادہ کم تعداد میں اور تم سے زیادہ آپسی تعلقات میں بگاڑ والی کوئی قوم نہیں دیکھی، تمہاری سرکشی کے وقت ہم سرحدی بستیوں کے لوگوں سے کہہ دیتے تھے اور وہ تمہیں درست کرنے کے لیے کافی ہوتے تھے۔ تم میں فارس پر چڑھائی کرنے کی کبھی جرأت نہیں ہوتی تھی، اگر تمہیں غرور ہوگیا ہے تو زیادہ اکڑنا نہیں چاہیے اور اگر افلاس نے تم کو یہاں آنے پر مجبور کیا ہے تو ہم اس وقت تک کے لیے تمہاری روزی روٹی کا انتظام کیے دیتے ہیں جب تک تم خوشحال نہ ہو جاؤ۔ ہم تمہارے سرداروں کی عزت کریں گے تم کو کپڑے پہنائیں گے اور تم پر ایسے شخص کو بادشاہ مقرر کریں گے جو تمہارے ساتھ مہربانی سے پیش آئے۔‘‘ مغیرہ بن زرارۃ نے یہ سن کر کہا: تم نے ہماری تنگ زندگی وخستہ حالی کا ذکر کیا ہے، بے شک ہم ایسے ہی تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ بری حالت میں تھے۔ اس کے بعد عربوں کی فاقہ کشی کی تفصیل بیان کی اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’جزیہ دو اور ذلت کی زندگی گزارو، تلوار یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو بچا لو۔‘‘ یزدگرد نے کہا: ’’اگر قاصدوں کا قتل کرنا خلاف اصول نہ ہوتا تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا، جاؤ تمہارے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد مٹی کا ایک ٹوکرا لانے کا حکم دیا اور اپنی قوم سے کہا: ’’ان میں جو سب سے زیادہ معزز ہو یہ ٹوکرا اس کے سر پر لاد کے اسے ہانکتے ہوئے مدائن سے باہر نکال دو۔‘‘ عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: ’’میں ان میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور پھر مٹی کا ٹوکرا اپنے کندھوں پر رکھ لیا اور اسے اٹھائے ہوئے اپنی سواری سے قادسیہ پہنچے۔ جب وہ سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: مبارک ہو، اللہ کیقسم ! اللہ نے ان کے ملک کی کنجیاں ہمیں عطا فرما دیں۔‘‘[1] اس کے بعد رستم اپنے ساتھ ایک لاکھ افواج سے زائد کا لشکر جرار لے کر ساباط سے آگے بڑھا، جب وہ مدائن وبابل کے درمیان ’’کوش‘‘ نام کی ایک بستی سے گزر رہا تھا تو ایک عربی سے اس کی ملاقات ہوگئی۔ رستم نے اس سے پوچھا: تم ہماری زمین میں کیوں آئے ہو؟ تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا: اگر تم اسلام لانے سے منکر ہوئے تو اللہ کے وعدہ کے مطابق تمہاری زمین اور تمہاری عوام پر ہم غلبہ چاہتے ہیں۔ رستم نے کہا: تب تو ہم تمہارے ہاتھوں ذلیل ہوئے۔ عربی نے کہا: تمہارے اعمال تمہیں ذلیل کریں گے اپنی بھاری بھرکم فوج پر غرور مت کرو، تم انسانوں سے نہیں اپنے مقدر سے لڑنے جا رہے ہو۔ رستم یہ جرأت مندانہ جواب سن کر غصے سے آگ بگولا ہوگیا اور اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد کوفہ اور حلہ کے درمیان ’’برس‘‘ نامی ایک بستی سے اس کی افواج کا گزر ہوا، وہاں پہنچ کر
[1] القادسیۃ/ أحمد عادل کمال ص:۷۰۔ [2] الدعوۃ الإسلامیۃ فی عہد عمر بن خطاب، ص: ۲۴۱۔