کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 62
کے پاس بھیج دیا۔ ہشام کہتے ہیں کہ جب میرے پاس وہ صحیفہ آیا تو میں اس کو ’’ذی طویٰ‘‘ [1] میں پڑھنے لگا۔ اسے لے کر نیچے وادی میں جاتا اور اوپر آتا، لیکن اسے سمجھ نہیں پاتاتھا۔ یہاں تک کہ میں نے دعا کی: اے اللہ مجھے اس آیت کا مطلب سمجھا دے۔ پھر اللہ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ یہ آیات ہمارے اور جو کچھ ہم خود اپنے بارے میں کہتے تھے اور جو کچھ لوگ ہمارے بارے میں کہتے تھے، اس کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ ( رضی اللہ عنہ ) کا کہنا ہے کہ میں اپنی سواری کی طرف پلٹا، اس پر سوار ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملا اس وقت آپ مدینہ میں تھے۔ [2] یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے اور اپنے دونوں ساتھیوں یعنی عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص بن وائل سہمی رضی اللہ عنہ کے لیے جب کہ ان میں سے ہر ایک الگ الگ قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا، ہجرت کی منصوبہ بندی کی تھی کہ جس مقام پر ان کے آپس میں ملنے کا وعدہ تھا وہ مکہ سے دور، حرم سے باہر اور مدینہ کے راستہ پر تھا۔ نیز وقت اور جگہ کی اتنی منظم انداز میں تحدید کی تھی کہ اگر ان سے کوئی ایک گرفتار کرلیا جائے تو بقیہ دونوں سفر شروع کر دیں اس کا انتظار نہ کریں، کیونکہ وہ گرفتار ہوچکا ہے، اور ان کے اندازے کے مطابق ایسا ہوا بھی۔ ہشام بن عاص رضی اللہ عنہ گرفتار کرلیے گئے۔ جب کہ عمر اور عیاش رضی اللہ عنہما نے سفر ہجرت جاری رکھا۔ اس طرح یہ منصوبہ بندی پوری طرح کامیاب ہوگئی اور وہ دونوں صحیح سالم مدینہ پہنچ گئے۔ [3] مگر قریش نے مہاجرین کا پیچھا کرنے کی ٹھان رکھی تھی، اسی لیے انہوں نے ایک مضبوط منصوبہ تیار کیا۔ اور ابوجہل اور حارث نے جو عیاش کے ماں شریک بھائی تھے، اسے پورا کرنے کی ذمہ داری لی۔ اسی قرابت نے عیاش کو ان دونوں کی طرف سے مطمئن کر رکھا تھا، خصوصاً اس وجہ سے کہ معاملہ ان کی ماں سے متعلق تھا۔ اور ابوجہل نے عیاش کی اپنی ماں کے ساتھ رحمت وشفقت کو دیکھتے ہوئے یہ سازش گھڑی تھی، اور یہ شفقت اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب آپ ان کے ساتھ لوٹنے پر تیار ہوگئے۔ اسی طرح اس واقعہ سے عمر رضی اللہ عنہ کا امن عامہ سے متعلق بلند وبالا شعور بھی کھل کر سامنے آتا ہے بایں طور کہ عیاش رضی اللہ عنہ کے اچک لیے جانے [4] کے بارے میں آپ کی دانائی ودور اندیشی سچ ثابت ہوئی۔ اسی طرح اخوت وبھائی چارگی کا وہ عظیم معیار بھی ظاہر ہوتا ہے جس کی اسلام نے بنیاد رکھی ہے۔ چنانچہ
[1] السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: ۱/ ۲۰۵