کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 61
رہے۔ جب ان کا اصرار برقرار رہا تو میں نے کہا: سنو! جب تم جو کرنا چاہتے ہو وہی کرو گے تو میری یہ اونٹنی لے لو، یہ اچھی نسل کی فرماں بردار اونٹنی ہے۔ اس پر سوار ہوجاؤ اور اگر ان لوگوں کی طرف سے تم کو بد عہدی کا شک گزرے تو بھاگ نکلو۔ چنانچہ وہ اونٹنی پر سوار ہو کر ان دونوں کے ساتھ چل پڑے۔ کچھ راستہ طے ہونے کے بعد ابوجہل نے کہا: اے بھائی! میری اونٹنی تھک گئی ہے، کیا تم مجھے اپنے پیچھے نہیں بٹھا لو گے؟ انہوں نے کہا: ضرور۔ پھر آپ نے اونٹنی بٹھائی، اور اس نے بھی اپنی اونٹنی بٹھائی تاکہ وہ اس پر بیٹھ جائے۔ جب وہ زمین پر اترے تو انہوں نے آپ پر حملہ کردیا۔ آپ کو باندھ دیا، اور مکہ لے گئے۔ پھر آپ کو آزمایا اور آپ فتنے میں گرفتار ہوگئے۔ [1] عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے: پھر ہم کہا کرتے تھے جس نے خود کو فتنے میں ڈالا اللہ تعالیٰ اس سے فدیہ، سفارش اور توبہ قبول کرنے والا نہیں ہے۔ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کو پہچانا پھر مصائب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ یہ باتیں وہ لوگ خود بھی اپنے بارے میں کہتے تھے، لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں اور ہماری باتوں نیز ان کی اپنی باتوں کے بارے میں کہا: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (53) وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (54) وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (55) (الزمر: ۵۳۔۵۵) ’’(میری جانب سے کہہ دو کہ) اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، یقینا اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی بخشش والا بڑی رحمت والا ہے۔ تم سب اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔ اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو۔‘‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ان آیات کو اپنے ہاتھوں سے صحیفہ میں لکھا اور اسے ہشام بن عاص
[1] صحیح التوثیق فی سیرۃ و حیاۃ الفاروق عمر بن الخطاب: ۳۱ [2] مکہ کی وادیوں میں سے ایک متوسط لمبائی چوڑائی والی وادی ہے۔ [3] مکہ سے دس میل کی دوری پر واقع ہے۔ [4] الہجرۃ النبویۃ المبارکۃ/ عبدالرحمٰن عبدالبر، ص: ۱۲۹