کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 607
کر لو، تم ایک مشکل اور صبر آزما مہم پر جا رہے ہو، حق پرستی ہی اس میں تمہاری معاون ہو سکتی ہے۔ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو خیر و بھلائی کا عادی بناؤ، اسی سے کامیابی کی توقع رکھو، ہر عادت کی خیر صبر ہے، اگر تمہیں کوئی تکلیف یا ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو صبر کرنا، دل اللہ کے خوف وخشیت سے معمور رہے گا۔ جان لو! اللہ کی خشیت دو چیزوں سے پیدا ہوتی ہے، ایک اس کی اطاعت و فرماں برداری سے اور دوسری گناہوں سے اجتناب سے۔ جس نے دنیا کو حقیر سمجھ کر اور آخرت سے محبت کر کے اللہ کی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے دنیا سے محبت کر کے اور آخرت کو حقیر سمجھ کر اللہ کی نافرمانی کی درحقیقت وہی عاصی ونافرمان ہے۔ دلوں کی مخصوص حقیقتیں اور حالتیں ہوتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے جس کے لیے چاہتا ہے ودیعت کرتا ہے، ان میں سے کچھ پوشیدہ اور کچھ علانیہ ہوتی ہیں۔ علانیہ یہ ہیں کہ برحق قول پر جم جانے کے بعد حق کے سلسلہ میں اس کو اچھا اور برا کہنے والے دونوں اس کی نگاہ میں برابر ہوں اور پوشیدہ حالت کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب حکمت دل سے نکل کر زبان پر آجاتی ہے اور لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پس لوگوں کی محبت حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہو، کیونکہ انبیاء اللہ تعالیٰ سے اسے مانگ چکے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرنے لگتا ہے تو لوگوں کی نگاہ میں اسے محبوب بنا دیتا ہے اور جب کسی بندہ سے نفرت کرتا ہے تو لوگوں کو اس سے متنفر کر دیتا ہے، لہٰذا اپنے معاون ومساعد لوگوں میں اپنا مقام و مرتبہ دیکھ کر اللہ کے پاس اپنے مقام و مرتبہ کا اندازہ کر لو۔[1] مذکورہ فاروقی نصیحت میں چند عبرت آموز باتیں: * کسی مسلمان کا حق بات پر جمے رہنا اسے مشکلات سے نجات دلاتا ہے، کیونکہ جو حق کو لازم پکڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے اور جو اللہ کے ساتھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنی نصرت وتائید کا یہ شعور و احساس اسے زیادہ سے زیادہ حسن عمل اور مشکلات ومصائب سے نمٹنے کی عظیم قوت عطا کرتا ہے۔ مزید برآں حق بات پر قولاً وعملاً جمے رہنے والے انسان کو قلبی سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص حق اور حقانیت کے راستے سے ہٹ جاتا ہے وہ طرح طرح کی بے چینیوں اور آلام ومصائب کا شکار ہوتا ہے، مثلاً خود اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے، اسے ہمیشہ لوگوں کے محاسبہ کا ڈر رہتا ہے، وہ نہیں جانتا کہ اس بے اعتدالی کے نتیجے میں اس کا مستقبل کیا اور کیسا ہو گا؟ * سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنی نصیحت میں فرمایا کہ ’’خیر کا ہتھیار صبر ہے۔‘‘ ایسا اس لیے کہ خیر اور حسن عمل کا راستہ فرش مخمل بچھا ہوا جیسا راستہ نہیں ہے بلکہ بہت تنگ اور خاردار ہے۔ اس پر چلنے کے لیے طویل جہدومشقت کی ضرورت ہے۔ اس پر گزرنے والے کو ہر مصیبت پر صبر کے لیے تیار رہنا چاہیے ورنہ درمیان راستہ ہی میں وہ دم توڑ دے گا۔
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۰۶۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۰؍۳۶۲۔