کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 606
۱: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی وصیت: جب سعد رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جنگ عراق کا امیر مقرر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے سعد! اے بنو وہیب کی سعادت! اس بات پر کبھی گھمنڈ نہ کرنا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہو، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں نیکی سے مٹاتا ہے اور اللہ اور اس کے بندے کے درمیان رشتہ اطاعت کے سوا دوسرا کوئی رشتہ نہیں، اللہ کی نگاہ میں ادنیٰ و اعلیٰ سب برابر ہیں، اللہ سب کا رب ہے اور سب اس کے بندے ہیں، طہارتِ نفس و تقویٰ میں ایک کو دوسرے پر فضیلت ہے، اللہ کی رضا مندی صرف اس کی اطاعت کوشی میں ہے، اپنی بعثت سے لے کر ہم سے جدا ہونے تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت رہی ہے ہر مسئلہ میں اسی پر نظر رکھنا کیونکہ وہی اصل دین ہے۔ یہی میری تم کو نصیحت ہے اگر تم اسے نہیں مانو گے اور اس سے اعراض کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔[1] خلیفہ ٔراشد، عظیم خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی یہ بلیغ نصیحت ہے، آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کی اس کمزور ی کو پکڑ لیا جس سے وہ دھوکا کھا سکتے تھے اور وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا قریبی تعلق کہیں ان کے لیے دیگر مسلمانوں پر گھمنڈ کرنے کا سبب نہ بنایا جائے۔ لہٰذا آپ نے ایسے عام اسلامی اصول کا حوالہ دیا جو اس دنیا میں مسلم فرد کی کرامت و برتری کا معتبر پیمانہ ہے۔ فرمایا: اللہ سب کا رب ہے اور سب اس کے بندے ہیں۔ صرف طہارت نفس سے ایک دوسرے پر فضیلت ملتی ہے اور اطاعت شعاری سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے تھے کہ گناہوں سے دوری اور اطاعت کو شی بلفظ دیگر صرف تقویٰ میں ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہو سکتی ہے اور اسی کا نام تقویٰ ہے اور وہی فضیلت و برتری کا الٰہی میزان ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ(الحجرات: ۱۳) ’’اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔‘‘ پس تقویٰ وطہارت نفس ہی سچی وبابرکت میزان ہے اگر مسلمان رب کی رضا اور اخروی سعادت کے حصول کے لیے کوشش کرے تو تقویٰ کی اس منزل تک پہنچنا اس کے لیے نہایت ممکن وآسان ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے نصیحت کے آخر میں فرمایا کہ ہر مسئلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت رہی ہے اسی پر عمل کرنا، آپ کی یہ نصیحت دین کے تمام احکامات کی بجا آوری اور عملی زندگی میں اس کے مکمل نفاذ کو شامل ہے۔[2] ۲: دوسری وصیت: جب امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو محاذ جنگ پر روانہ کرنے نکلے تو انہیں دوسری وصیت ان لفظوں میں کی: ’’میں نے تم کو جنگ عراق کا سالار اعلیٰ بنایا ہے، میری وصیت غور سے سنو اور ذہن نشین
[1] حرکۃ الفتح الإسلامی: ص ۸۰۔ [2] ’’صرار‘‘ مدینہ سے تین میل کی دوری پر ایک جگہ ہے۔ معجم البلدان: ۳/ ۳۹۸۔ [3] ترتیب وتہذیب البدایۃ والنہایۃ: ص ۹۶۔