کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 605
جب باشندگان عراق کے مؤقف میں یہ تبدیلی آئی تو مجبوراً مسلمانوں کو بھی اپنا مؤقف بدلنا پڑا اور بالآخر یہ ہوا کہ: * انخلاء: مثنی رضی اللہ عنہ اور دوسرے مسلم قائدین کا اپنے مفتوحہ علاقوں کو عجمیان چھوڑ کر عراق کے درمیان سے باہر آجانا۔ * واپس پلٹنا: عرب و فارس کی سرحد پر آبی علاقوں کی طرف پلٹ کر وہاں پڑاؤ ڈالنا پڑا، مثنی رضی اللہ عنہ نے ’’ذی قار‘‘ میں قیام کیا اور لوگوں نے ’’حلف‘‘ میں۔ وہاں پہنچ کر فوجی دستے تیار کیے گئے۔ ان میں سے ہر دستہ دوسرے پر نگاہ رکھتا تھا اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتا تھا۔ * جب اہل فارس نے جبری فوجی بھرتی کا سلسلہ شروع کیا تو مسلمانوں نے بھی ان کے بالمقابل جبری فوجی بھرتی کا سلسلہ شروع کیا۔[1] جنگ عراق کے لیے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی امارت: فتوحات عراق کا یہ تیسرا مرحلہ ہے جس کا آغاز ۱۴ہجری میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی امارت سے ہوتا ہے۔ ایک طرف ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا چودھواں سال شروع ہو رہا ہے اور دوسری طرف عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو اہل فارس سے جنگ کرنے پر ابھار رہے ہیں۔ اس سال کے محرم کی پہلی تاریخ کو مدینہ سے اسلامی لشکر لے کر آگے آگے چلتے ہیں۔ ’’صرار‘‘[2] نامی ایک چشمہ پر آکر ٹھہر جاتے ہیں اور بہ نفس نفیس جنگ عراق میں شرکت کا عزم مصمم لے کر یہاں لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ مدینہ میں سیّدناعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب چھوڑا ہے اور ساتھ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور دیگر بزرگ وممتاز صحابہ ہیں۔ اپنے عزم و فیصلہ کے متعلق صحابہ سے مشورہ لینے کے لیے ایک مجلس منعقد کرتے ہیں۔ ’’ الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ‘‘ کی ندا لگائی گئی اور علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے بلا بھیجا پھر آپ نے سب سے مشورہ طلب کیا کہ جنگ میں میری شرکت کیسی ہے؟ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب نے آپ کی شرکت کی تائید کی۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: مجھے ڈر ہے کہ اگر کہیں آپ کو کوئی زک پہنچ گئی تو سارے مسلمان کمزور پڑ جائیں گے۔ میری رائے ہے کہ آپ اپنی جگہ پر کسی دوسرے شخص کو امیر بنا دیں اور خود مدینہ واپس لوٹ جائیں پھر دوسرے صحابہرضی اللہ عنہم نے بھی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی فکر سے اتفاق کیا، خود عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے بہتر سمجھا۔ لیکن آپ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: پھر آپ کی رائے میں کس کو امیر بنایا جائے؟ انہوں نے کہا: میں نے پا لیا۔ آپ نے پوچھا: کون؟ انہوں نے کہا: کچھار کا شیر، سعد بن ابی وقاص، عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی بات کو پسند کیا اور سعد رضی اللہ عنہ کو نجد سے بلا کر جنگ عراق کا امیر بنا دیا۔[3]
[1] إتمام الوفاء: ص ۷۰۔ [2] حرکۃ الفتح الإسلامی: ص۸۰۔