کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 604
(۲) معرکہ قادسیہ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ اہل فارس بڑے زور شور سے لڑائی کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں اور عراقی مسلمانوں کی مختصر سی باقی ماندہ فوج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو جبری فوجی بھرتی کا حکم دیا اور حالات کا تقاضا بھی یہی تھا۔ آپ نے مثنی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تمام قبائل میں جو مرد میدان ہوں اور لڑنے کی طاقت رکھتے ہوں انہیں فوج میں بھرتی کریں، وہ اس کے لیے راضی ہوں یا نہ ہوں، اس عمل کو جبری فوجی بھرتی کہا جاتا ہے جسے اسلام میں سب سے پہلے عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔ اس واقعہ سے کتاب ’’العسکریۃ الاسلامیۃ‘‘ کے مؤلف محمد فرج کی اس تحقیق کی تردید ہو جاتی ہے جن کا کہنا ہے کہ جبری فوجی بھرتی اموی دور حکومت کی ایجاد ہے۔ مذکورہ واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ فوجی بھرتی کے اس نظام کو سب سے پہلے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نافذ کیا اور جوں ہی مثنی رضی اللہ عنہ کے نام امیرالمومنین کا جبری فوجی بھرتی سے متعلق خط پہنچا انہوں نے فوراً اسے نافذ کیا۔ فوجی نقل وحرکت کا جو نقشہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کھینچا تھا اسی کے مطابق اپنا قدم آگے بڑھایا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام گورنروں اورافسروں کے پاس کارندے بھیج کر انہیں حکم دیا کہ ہر اس شخص کو جو مرد میدان ہو، جس کے پاس ہتھیار ہو، جس کے پاس گھوڑا ہو یا وہ جنگی بصیرت کا مالک ہو منتخب کر لو اور جلد از جلد میرے پاس بھیج دو اور لوگوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کرو اور انہیں میرے پاس بھیجتے رہو تاکہ انہیں عراق کے محاذ پر بھیج سکوں۔[1] یزدگرد کے حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد بلاد فارس کے باشندوں کے مؤقف میں کئی تبدیلیاں آگئیں * اندرون ملک اقتدار میں استقرار وپختگی پیدا ہوگئی اور سب اپنے اندرونی اختلافات کو بھلا کر یزدگرد کی حکومت پر متحد ومتفق ہوگئے۔ حکومت فارس کو بھی اطمینان نصیب ہوا، عوام نے حکومت کے دست وبازو کو مضبوط کیا، رؤسائے فارس نے بڑھ چڑھ کر اس کی مدد اور اطاعت کی۔ * عام فوجی بھرتی شروع ہوئی، جدید شکل میں کیل کانٹے سے لیس ہوئے اور مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں میں جماعتوں کی شکل میں انہیں پھیلا دیا گیا۔ * عراقی باشندوں کو بھڑکایا گیا اور مسلمانوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا۔ نتیجتاً ذمی کسانوں نے عہد وپیمان کو توڑ دیا اور فارسی فوج کے ساتھ ہو لیے۔[2]
[1] الطریق إلی المدائن: ص ۴۷۱۔