کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 602
کیا تھا ان میں اس کا بھائی اور اس یزدگرد کا باپ شہر یار بن کسریٰ بھی تھا جو کسریٰ پرویز کی سب سے چہیتی بیوی ’’شیرین‘‘ سے تھا۔ بہرحال کارندوں نے یزدگرد کی ماں پر دباؤ ڈالا اور اس نے لڑکے کا پتہ بتا دیا۔ پھر اسے لایا گیا اور چونکہ اس کے سوا بنو ساسان کی نرینہ اولاد نہیں بچی تھی، اس لیے اہل فارس نے اسے تخت حکومت پر لا بٹھایا، حالانکہ ابھی اس کی عمر صرف اکیس(۲۱) سال تھی۔ اس کی حکومت پر سب نے اتفاق کر لیا۔ سارے اہل فارس اس سے مطمئن ہوگئے، اس کی مدد و فرماںبرداری کے لیے آگے بڑھے اور ماضی کے اقتدار کی جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا اسے بہترین حل سمجھا۔[1] یزدگرد ثالث نے بھی رستم و فیرزان کی مدد سے اپنے اختیارات وقوت کو استعمال میں لانا شروع کیا، کسریٰ کے دور حکومت میں سرحدوں پر جو حفاظتی چوکیاں قائم تھیں انہیں دوبارہ قائم کیا اور ہر سرحدی چوکی کے لیے الگ الگ فوجی لشکر تشکیل دے کر ان کا نام رکھا، مثلاً یہ حیرہ کی فوج ہے، یہ انبار کی فوج ہے اور یہ ابلہ کی فوج ہے۔[2] مثنی رضی اللہ عنہ کے نام فاروقی مشورے اور ہدایات: جب مثنی رضی اللہ عنہ کو اپنے مخبروں کے ذریعہ یزدگرد ثالث کی فوجی تیاریوں کی خبر ملی تو اس سے اور عجمیوں کی داخلی بغاوت کے متوقع خطرات سے عمر رضی اللہ عنہ کو خط کے ذریعہ اطلاع بھیجی اور اسی طرح ہوا کہ مثنی رضی اللہ عنہ کا اندازہ بالکل صحیح نکلا، چنانچہ ابھی ان کا خط سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا بھی نہ تھا کہ سواد عراق کے عجمیوں نے عہد وپیمان توڑ کر بغاوت کا اعلان کر دیا اور مسلمانوں کے خلاف ہو گئے۔ بغاوت کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن سے معاہدہ تھا اور وہ لوگ بھی تھے جن سے کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ دوسری طرف فارسی فوج نے حملہ کرنے میں جلدی کر دی۔ اہل ذمہ کے باغیانہ تیور کا تعاون پا کر فوج مسلمانوں کے بالکل قریب آگئی۔ مثنیٰ رضی اللہ عنہ یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنی فوجی قوت سے زیادہ پیش قدمی اور قبضہ کر چکے ہیں اور ایسی صورت میں یہ دیرپا نہ ہو گا چنانچہ طف میں آپ اپنے مجاہد ساتھیوں کو لے کر پیچھے ہٹے اور ذی قار آکر رک گئے۔ پھر تمام لوگوں کو ایک لشکر میں اتار دیا، ادھر عمر رضی اللہ عنہ وہاں کی صورت حال پڑھ کر سب سے زیادہ بے قرار تھے، چنانچہ مثنی رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کے نام آپ کا جوابی خط وارد ہوا۔ اس میں آپ نے مثنی رضی اللہ عنہ کی ان لفظوں میں رہنمائی کی تھی: ’’حمد وصلاۃ کے بعد! آپ لوگ عراق کے عجمیوں کے بیچ سے نکل کر خشکی کی طرف چلے آئیں اور دریائے فرات کا وہ ساحلی علاقہ جو عجمیوں کے قریب علاقہ تمہارے اور ان کے سر پر واقع ہے وہاں قیام کرو، قبیلہ ربیعہ ومضر، ان کے خلفاء ومعاونین اور شہ سواروں کو اکٹھا کرو، سب خوشی خوشی اکٹھے ہوتے ہیں تو ٹھیک ورنہ زبردستی سب کو جمع کرو۔ اگر عجمی قوت و بہادری کا مظاہرہ کریں تو عربوں کو قوت وسرفروشی پر ابھارو اور سرحد پر پڑاؤ ڈالے رہو یہاں تک کہ میرا حکم آپہنچے۔[3]
[1] الطریق إلی المدائن: ص ۴۶۷۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۰۰۔