کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 59
ہجرت: جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو علی الاعلان ہجرت کا عزم کیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: میرے علم کے مطابق عمر بن خطاب کے علاوہ تمام مہاجرین نے چھپ چھپ کر ہجرت کی لیکن جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا عزم کیا تو تلوار کو گردن میں لٹکایا اور ترکش کو کندھے پر رکھا، ہاتھ میں تیر پکڑے اور لاٹھی لے کر نکل پڑے۔ [1] کعبہ کی طرف گئے، قریش اس کے صحن میں بیٹھے تھے، بہت اطمینان سے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے سات چکر لگائے، پھر مقام ابراہیم پر آئے اور اطمینان سے نماز پڑھی، پھر ایک ایک کرکے تمام حلقوں سے گزرے اور ان سے کہا: چہرے برباد ہوجائیں اللہ تعالیٰ ان کی عزت کو خاک میں ملا دے گا۔ جس کی یہ خواہش ہو کہ اس کی ماں اسے گم پائے اس کی اولاد اس پر ماتم کرے یا اس کی عورت بیوہ ہو جائے تو وہ اس وادی کے پیچھے مجھ سے ملاقات کرے۔ علی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ آپ کے ساتھ صرف کمزوروں کی ایک جماعت ساتھ رہی، آپ نے ان کو سکھایا، ان کی رہنمائی کی، اور رضائے الٰہی کے لیے آگے بڑھتے گئے۔ [2] سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ تشریف لائے، آپ کے ساتھ آپ کے خاندان اور گھر کے لوگ تھے۔ آپ کے بھائی زید بن خطاب تھے اور سراقہ بن معتمر کے دونوں لڑکے عمرو اور عبداللہ بھی تھے۔ نیز آپ کے داماد خنیس بن حذافہ سہمی اور چچا زاد بھائی سعید بن زید تھے۔ یہ عشرہ مبشرہ (جنت کی بشارت پانے والے دس افراد) میں سے ایک ہیں۔ واقد بن عبداللہ تمیمی تھے جو ان کے حلیف تھے۔ خولی بن ابی خولی، مالک بن ابی خولی جو بنوعجل اور بنو بکر کی طرف سے ان کے حلیف تھے، یہ لوگ بھی تھے اور ایاس، خالد، عاقل اور عامر نیز بنو سعد بن لیث کی طرف سے جو لوگ ان کے حلیف تھے وہ سب تھے۔ یہ تمام لوگ قبا میں بنو عمرو بن عوف کے قبیلہ میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے پاس اترے۔ [3] براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: سب سے پہلے ہمارے پاس مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم آئے، وہ لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ پھر بلال، سعد اور عمار بن یاسر آئے، پھر بیس (۲۰) صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت میں عمر بن خطاب آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے مدینہ والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہونے سے بڑھ کر کسی چیز پر خوش ہوتے نہیں دیکھا۔ [4]
[1] الطبقات الکبریٰ: ۳/ ۲۶۹ ۔ صفۃ الصفوۃ: ۱/ ۲۷۴ [2] نونیۃ القحطانی، ص:۲۲ [3] تاریخ الخلفاء، ص: ۱۳۷ [4] اخبار عمر، الطنطاویات، ص: ۲۲ [5] اخبار عمر، الطنطاویات، ص: ۲۲