کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 588
جن علاقوں کو فتح کیا ہے کم از کم انہی کی حفاظت کر سکیں۔ ایسے وقت میں اہل فارس کے لیے بہت آسان تھا کہ مسلمانوں کی اس مختصر سی فوج پر حملہ کر دیں اور انہیں عراق سے نکال باہر کر دیں۔ اس موقع پر انہیں ایسے عرب معاونین کے مل جانے کی بھی توقع تھی جو مسلمانوں کو صحرا میں کھدیڑتے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مومن جماعت کا ساتھ دیا اور وہ ہمیشہ ہر مقام پر اپنے مومن بندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب کبھی مخلص مسلمان کسی مشکل میں پھنسے اللہ نے مشکلات سے نکالنے کے لیے ان کے سامنے اسباب پیدا کر دیے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا، اللہ تعالیٰ نے ایسا سبب پیدا کر دیا کہ وہ مسلمانوں سے غافل ہوگئے۔ بایں طور کہ ایرانی حکومت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، ایرانیوں کی ایک جماعت نے رستم کو اپنا حاکم بنا لیا اور ایک جماعت نے فیرزان کو اور جب ایرانی حکومت کے فوجی جرنیل بہمن جاذویہ کو یہ خبر ملی تو وہ فوراً مدائن واپس چلا گیا، کیونکہ وہ ایرانی سیاست کا ایک دانش مند فرد مانا جاتا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے جنگ کے لیے کافی ہوگیا اور اس نے انہیں مشکل حالات سے بچا لیا۔ ادھر دارالخلافہ سے ان تک اسلامی افواج کو پہنچنے کا بہترین موقع مل گیا پھر مسلمانوں کی فوجی قوت میں اضافہ ہوگیا اور ان کا ایک بڑا لشکر تیار ہوگیا۔[1] ہزیمت کی خبر سننے کے بعد سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کا موقف: مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کے ذریعہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس معرکے کی خبر بھیجی۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ جب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو وہ منبر پر تشریف فرما تھے۔ وہیں سے پوچھا: اے عبداللہ بن زید کیا خبر ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمومنین! آپ کے پاس خبر ہی دینے آیا ہوں اور پھر امیرالمومنین کے قریب جا کر آہستہ سے آپ کو عراق کی صورت حال اور معرکہ کی ہزیمت سے مطلع کیا۔[2] آپ نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے علاوہ جن لوگوں سے بھی ہزیمت کی خبر سنی تھی ان میں سب سے تفصیلی اور معتبر خبر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی تھی۔[3] اس معرکہ میں اسلامی فوج کی شکست کی خبر سن کر عمر رضی اللہ عنہ اور وہاں موجود دوسرے صحابہ بہت غمگین ہوئے، پھر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے دعا کی: اے اللہ ہر مسلمان میری طرف سے آزاد ہے، میں ہر مسلمان کا مددگار ہوں، جو مسلمان اپنے دشمن سے نبرد آزما ہوا اور اس کے حملوں کا شکار ہوگیا میں اس کے لیے بھی مددگار ہوں، اے اللہ ابوعبید پر رحم فرما! اگر وہ میری طرف لوٹتا تو میں اس کا بھی مددگار ہوتا۔ [4] عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مؤقف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ طبعی طور پر سخت اور پختہ عزم وانسان ہونے کے باوجود جہاں نرمی اور شفقت کی ضرورت پڑتی وہاں نرمی اور غم خواری بھی کرتے تھے۔[5]
[1] عوامل النصر والہزیمۃ: ص۵۵۔ [2] الطریق إلی المدائن: ص ۴۱۴۔ [3] التاریخ الإسلامی: ۱۰/۳۴۳۔ [4] الحرب النفسیۃ: د/أحمد نوفل ۲/۱۶۷۔