کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 587
کے اعتبار سے پہلی غلطی سے کہیں زیادہ خطرناک تھی، وہ یہ کہ عبداللہ بن مرثد ثقفی نے دریا پر بنا ہوا پل توڑ دیا تاکہ مسلمان میدان جنگ سے بھاگ نہ سکیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس وقت اللہ کی خاص رحمت اور پھر مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ نیز ان کے ساتھیوں کی ثابت قدمی نہ ہوتی تو اس دن سارے مسلمان ہلاک ہوجاتے۔[1] میدانی قیادت کی اہمیت: معرکہ جسر جنرل قیادت کی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے اور اس کی جھلک مثنی رضی اللہ عنہ اور ان کے ماتحت عمائدین لشکر میں صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے، چنانچہ جب افواج مشکلات وآزمائشوں سے گھر جاتی ہیں تو میدانی قائدین خود آگے آتے ہیں اور اپنی افواج کو ان مشکلات سے نکالتے ہیں۔[2] مثنی نے ایسا ہی کیا اور بے جگری سے مقابلہ کرنے والے اپنے ساتھیوں کو لے کر اسلامی فوج کی حمایت وحفاظت میں کھڑے ہوگئے اور سب سے آخر میں پل سے دریا عبور کیا۔ یہ ہے قربانی وفدائیت کا ایک مثالی نمونہ۔[3] سیّدنامثنی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر میں عزم وحوصلے کی روح پھونکتے ہیں: پچھلے صفحات میں یہ بات گزر چکی ہے کہ مثنی رضی اللہ عنہ دس ہزار اسلامی افواج میں سے صرف پانچ ہزار کو بچا سکے اور انہیں لے کر میدان سے پیچھے ہٹ گئے۔ انہیں دو ایرانی کمانڈروں یعنی ’’جابان‘‘ اور ’’مردان شاہ‘‘ نے پیچھے دھکیل کر ’’الیس‘‘ (سماوہ) تک پہنچا دیا تھا۔ مثنی رضی اللہ عنہ نے انہیں کافی لمبی مسافت میں اندر آنے دیا اور وہ خوب اندر گھس بھی گئے۔ مثنی رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ ان پر اس وقت تک دفاعی حملہ نہ کیا جائے جب تک کہ آپ پیچھے ہوتے ہوتے الیس تک نہ پہنچ جائیں۔ چنانچہ جب اس مقام تک پہنچے تو اپنے شہسواروں کے ساتھ بجلی کی طرح بڑھ کر ان پر حملہ کیا اور پھر دونوں ایرانی افواج کو زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی فوج حواس باختہ ہوگئی اور ان کے وہم وخیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایسا انسان جس کے لشکر کا کافی حصہ ضائع ہو چکا ہو وہ اس طرح عزم وجانبازی کا مظاہرہ کرے گا جس سے تلوار کند پڑ جائے۔ بہرحال ایرانی فوج کی حواس باختگی اور افراتفری نے اسے بہت نقصان پہنچایا یہاں تک کہ مثنی رضی اللہ عنہ نے دونوں ایرانی کمانڈروں جابان اور مردان شاہ کو گرفتار کر لیا اور پھر انہیں تہ تیغ کیا۔ اس نصرتِ الٰہی کا زبردست اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی باقی ماندہ فوج کے عزم وحوصلے بلند ہوگئے اور وہاں کے باشندگان کے حوصلے پست ہوگئے اور خود مثنی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی نگاہوں میں اور قرب وجوار کے قبائل میں ان کی اہمیت اور مقام ومرتبہ میں اضافہ ہوگیا۔[4] مخلص مسلمان جب بھی کسی مصیبت میں واقع ہوئے اللہ نے اسباب پیدا کر کے انہیں مصیبت سے نکالا: سیّدنامثنی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی معمولی تعداد کے ساتھ عراق میں باقی رہے، وہ اتنے بھی نہ تھے کہ مسلمانوں نے
[1] تاریخ الطبری: ۴/۲۷۷۔ [2] عوامل النصر والہزیمۃ: ص۵۵۔ [3] الطریق إلی المدائن: ص ۴۱۴۔