کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 585
غروب ہوتے ہوئے سب سے آخر میں مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی، اس وقت تک بعض مسلمان پیچھے ہٹتے اور کھسکتے پل کے اس پار اتر چکے تھے اور کچھ میدان چھوڑ کر پیچھے آرہے تھے، عبداللہ بن مرثد ثقفی نے جب دیکھا کہ مسلم فوج میدان چھوڑ کر بھاگنا چاہتی ہے تو انہوں نے جلدی سے دریا پر بنا ہوا پل توڑ دیا اور کہنے لگے جس طرح تمہارے امراء وقائدین نے لڑتے لڑتے جانیں دی ہیں اسی طرح تم بھی جان دے دو یا کامیاب ہو کر لوٹو، وہ لوگوں کو دریا عبور کرنے سے روکنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ بعض لوگ ان کو پکڑ کر مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے پاس لائے۔ آپ نے غصہ سے ان کو مارا اور کہنے لگے: تم نے ایسا کیوں کیا؟ یعنی پل کیوں توڑ ڈالے؟ انہوں نے کہا: تاکہ فوج جم کر جنگ لڑے۔ دراصل عبداللہ بن مرثد نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ اقدام کیا تھا، حالانکہ ان کا اجتہاد نامناسب مقام پر تھا۔ اس لیے کہ پل کا ٹوٹ جانا ایرانیوں کے دباؤ سے بھاگتے ہوئے بہت سارے مسلمانوں کے دریا میں غرق آب ہونے کا سبب بن گیا۔ اس وقت کی مناسب فکر تو یہ تھی کہ جس قدر ممکن ہو سکے پیچھے ہٹ کر بقیہ مسلمانوں کی جان بچائی جائے اور مثنی بن حارثہ نے یہی حکمت عملی اختیار بھی کی۔ دوبارہ پل باندھنے کا حکم دیا اور خود چند مسلم جانبازوں کو ساتھ لے کر دشمن کے سامنے ڈٹ گئے اور اپنی فوج کی پشت پناہی کرنے لگے یہاں تک کہ سب دریا پار اتر گئے۔ آپ اس وقت کہہ رہے تھے: اے لوگو! ہم تمہارے لیے دشمنوں سے روک ہیں۔ اپنی رفتار سے پل پار کرتے رہو، گھبراؤ نہیں ہم یہاں سے ہٹنے والے نہیں، یہاں تک کہ تم کو دریا کے اس پار دیکھ لیں، بھگدڑ مچا کر خود کو دریا میں غرق مت کرو، اس طرح مثنی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی عاصم بن عمرو اور کلج ضبی وغیرہ مرد میدان نے سب سے آخر میں دریا عبور کیا۔ بہمن جاذویہ یہ چاہتا تھا کہ بچے کھچے مسلمانوں پر بھی اسی وقت حملہ کر دے اور اس کے لیے وہ آگے بھی بڑھا لیکن پھر ہمت نہ کر سکا۔ مثنی رضی اللہ عنہ نے اسے کوئی موقع نہ دیا اور منظم شکل میں اپنے ساتھیوں کو پیچھے کھینچ کر محفوظ کر لیا۔ یہ جانباز جنہوں نے مسلمانوں کو پیچھے کر کے خود دشمن کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ تمام مسلمان دریا عبور کر گئے، بے شک وہ دشمن کے سامنے ایک پہاڑ تھے۔ اسلامی فوج نے میدان کارزار میں پانچ ہزار شہداء کو چھوڑ کر بقیہ پانچ ہزار کی تعداد میں دریا عبور کیا۔ ان شہداء میں اکثر صحابہ تھے، بالخصوص اس میں وہ لوگ شہید ہو گئے جو ابوعبید رحمہ اللہ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور پانچ ہزار کی جو تعداد میدان جنگ سے واپس آگئی تھی ان میں سے دو ہزار مدینہ وغیرہ واپس چلے گئے اور صرف تین ہزار مثنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ باقی رہے۔ واضح رہے کہ مسلمانوں نے اس معرکہ میں بے حد نامساعد و ابتر حالات کے باوجود چھ ہزار ایرانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا، دشمن کو اس قدر خسارہ پہنچانا درحقیقت مسلمانوں کی بہادری اور ان کی قوت تحمل کی دلیل ہے۔[1]
[1] ترتیب وتہذیب البدایۃ والنہایۃ: ص ۹۰۔