کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 58
صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے تو اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا، علی الاعلان اس کی طرف دعوت دی گئی، ہم خانہ کعبہ کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھنے لگے، ہم نے اس کا طواف کیا اور جس نے ہم پر سختی کی ہم نے اس سے بدلہ لیا۔ [1] عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں کسی شاعر کا یہ قول سچ ہے: أعنی بہ الفاروق فرق عنوۃ بالسیف بین الکفر والإیمان ’’میری مراد فاروق سے ہے جنہوں نے کفر وایمان کے درمیان تلوار کی قوت سے فرق واضح کردیا۔‘‘ ہو أظہر الإسلام بعد خفائہ ومحا الظلام وباح بالکتمان[2] ’’انہوں نے پوشیدگی کے بعد اسلام کو ظاہر کیا اور تاریکیوں کو ختم کر دیا اور پوشیدگی کو دور کیا۔‘‘ اسلام لانے کی تاریخ اور قبولِ اسلام کے وقت مسلمانوں کی تعداد: عمر رضی اللہ عنہ نے نبوت کے چھٹے سال، ۲۷ سال کی عمر میں ذی الحجہ [3] کے مہینے میں سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے تین دن بعد اسلام قبول کیا۔ [4] اس وقت مسلمانوں کی کل تعداد انتالیس (۳۹) تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: جب میں نے اسلام قبول کیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف انتالیس (۳۹) آدمی تھے۔ میں نے چالیس (۴۰) کی تعداد پوری کردی۔ پس اللہ نے اپنے دین اسلام کو غلبہ عطا کیا۔ یہ بھی مروی ہے کہ مسلمان مردوں کی تعداد ۴۰ یا ۴۰ سے کچھ زیادہ تھی اور گیارہ (۱۱) عورتیں تھیں لیکن عمر رضی اللہ عنہ سب کو نہیں پہچانتے تھے کیونکہ اکثر لوگ جو اسلام لاچکے تھے وہ مشرکین کے خوف سے اپنے ایمان کو ظاہر نہیں کرتے تھے، خصوصاً عمر رضی اللہ عنہ کے خوف سے، اس لیے کہ آپ ان کے خلاف بہت سخت تھے۔ اور اسی طرح انہوں نے مردوں کی تعداد (۴۰) پوری کرنے کا ذکر کیا اور عورتوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ وہ کمزور ہوتی ہیں اور ان کے ذکر میں کوئی اعزاز کی بات نہیں۔ [5]
[1] الریاض النظرۃ، ص: ۳۱۹ [2] یہ مجلس ہماری ہوتی یا تمہاری۔ [3] فضائل الصحابۃ / أحمد بن حنبل: ۱/ ۳۴۶ اس کی سند حسن ہے۔ [4] فضائل الصحابۃ / أحمد بن حنبل: ۱/ ۳۴۴ اس کی سند حسن ہے۔ [5] الشیخان أبوبکر وعمر بروایت بلاذری، ص: ۱۴۱