کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 573
لا ألفینک بعد الموت تندبنی وفی حیاتی مازودتنی زادی[1] ’’تمہیں میں ایسا نہ پاؤں کہ تم میرے مرنے کے بعد آہ وبکا کرتی رہو اور میری زندگی میں میرے لیے توشہ تک تیار نہ کیا۔‘‘ خالد رضی اللہ عنہ کی وفات پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ بہت غمگین ہوئے اور خالد رضی اللہ عنہ کی چچا زاد بہنیں بھی ان پر روئیں۔ سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے کہا: آپ انہیں (عورتوں کو) منع کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: اگر وہ ابوسلیمان کو اس طرح روئیں کہ نہ گریبان پھاڑیں نہ واویلا مچائیں تو انہیں رونے دیں۔ رونے والیوں کو ابو سلیمان جیسے لوگوں پر رونا چاہیے۔[2] اور خالد رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ’’خالد کی موت سے اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جو جلدی پُر نہیں ہوگا، کاش وہ زندہ ہوتے! جب تک رہے میدان کار زار میں ناقابل تسخیر پہاڑ بن کر رہے۔ اللہ کی قسم، وہ دشمن کے مقابلے میں ایک مضبوط دیوار تھے، ان کے مشورے قابل قدر ہوتے تھے۔‘‘[3] ہشام بن نجتری بنی مخزوم کے چند لوگوں کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ہشام ایک شاعر آدمی تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: ہشام مجھے وہ شعر سناؤ جو تم نے خالد کے بارے میں کہے ہیں۔ ہشام نے اپنے بہترین اشعار سنائے، پڑھ چکا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو سلیمان پر اللہ رحم فرمائے، تم نے ان کی توصیف کا حق ادا نہیں کیا، وہ شرک اور مشرکوں کو قعر مذلت میں ڈالنا پسند کرتے تھے، ان کو برا بھلا کہنے والا اللہ کی ناراضی کا مستوجب قرار پائے گا۔ پھر آپ نے شاعر کے قول سے مثال دی: فقل للذی یبغی خلاف الذی مضٰی تہیأ لأخری مثلہا فکأن قد ’’اس شخص سے کہہ دو جو گزری ہوئی چیز کے خلاف خواہش رکھتا ہے کہ اس کے مثل دوسری چیز کی تیاری کرے وہ تو گزر چکی۔‘‘ فما عیش من قد عاش بعدی بنافعی ولا موت من قد مات بعد بمخلدی ’’جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا اس کی زندگی سے مجھے کوئی فائدہ نہیں اور نہ میرے بعد مرنے والے کی موت مجھے زندگی عطا کر سکتی ہے۔‘‘
[1] خالد بن ولید: صادق عرجون ص: ۳۴۹، الخلافۃ والخلفاء: ص ۱۹۸۔ [2] سیر أعلام النبلاء: ۱/۳۸۲، الطریق إلی المدائن: ص ۳۷۶۔