کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 571
نے علقمہ کے دل کی بات جاننا چاہی اور کہا: اے فلاں! تو پھر تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ (خلیفہ) ان لوگوں میں سے ہے جن کا ہمارے اوپر حق ہے، ہم ان کا حق ادا کریں اور ہمارا ثواب اللہ کے حوالے ہے۔ جب صبح ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ سے پوچھا، علقمہ بھی وہاں موجود تھے، کہا: اے خالد آج رات علقمہ نے تم سے کیا کہا؟ خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم، اس نے کچھ نہیں کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حیرت ہے، انکار بھی کرتے ہو اور قسم بھی کھا رہے ہو؟ اس پر علقمہ کو جوش آگیا کیونکہ ان کو یقین تھا کہ رات کو میں نے خالد رضی اللہ عنہ ہی سے بات کی ہے، چنانچہ وہ خالد رضی اللہ عنہ سے الزاماً کہنے لگے: اے خالد تم غلط کہتے ہو اور اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے علقمہ کو انعام دیا نیز ان کی ضرورت پوری کی اور کہا: اگر میرے پیچھے جو لوگ ہیں (یعنی رعایا) میری مخالفت کے باوجود تمہاری طرح سوچ رکھیں یعنی حاکم کی اطاعت بہر حال واجب جانیں تو یہ میرے نزدیک ہر چیز سے محبوب ہے۔[1] اسلامی سماج کے اس بے نظیر سمع و طاعت کے مظاہرے کے باوجود بعض اعتراضات بھی سامنے آئے چنانچہ جابیہ میں خطبہ دیتے ہوئے جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے خالد کی معزولی کا عذر بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’میں خالد بن ولید کی معزولی پر تم سے معذرت خواہ ہوں، میں نے انہیں حکم دیا تھا کہ یہ مال کمزور مہاجرین پر خرچ کریں، لیکن انہوں نے اسے طاقت وروں اور اغنیاء میں تقسیم کیا، اس لیے میں نے انہیں معزول کر دیا اور ابوعبیدہ بن جراح کو امیر بنا دیا۔‘‘ یہ سن کر سیّدناخالد رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ نے کہا: ’’اے عمر! میں آپ کی معذرت قبول کرنے کو تیار نہیں، آپ نے ایسے ذمہ دار کو معزول کیا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا اور ایسی تلوار کو نیام میں ڈالا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے نیام کیا تھا، ایسے جھنڈے کو جھکایا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصب کیا تھا، آپ نے قطع رحمی کی ہے اور میرے چچا زاد بھائی کے ساتھ حاسدانہ برتاؤ کیا ہے۔‘‘ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تم قرابت و رشتہ داری کا حق ادا کر رہے ہو، نو عمر ہو، اپنے چچیرے بھائی کے سلسلہ میں آپے سے باہر ہو۔‘‘[2] یہ ہے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی کے لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی کشادہ دلی کا مظاہرہ کہ وہ خالد رضی اللہ عنہ کی طرف سے دفاع کرتے کرتے عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر ’’حسد‘‘ کی تہمت لگا دیتے ہیں، پھر بھی آپ اس کے لیے نہایت بردباری کا ثبوت دیتے ہیں۔[3]
[1] اباطیل یجب أن تمحی من التاریخ: ص۱۳۴۔ [2] البدایہۃ والنہایۃ: ۷/۱۱۵۔ [3] التاریخ الاسلامی: ۱۱/۱۴۷۔ [4] الخلافۃ والخلفاء الراشدون: سالم البھنساوی ص۱۹۶۔ [5] أباطیل یجب أن تمحی من التاریخ: ص ۱۳۴۔