کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 56
آدمی تھے۔ ان کا دروازہ کھٹکھٹایا، کہا: کون ہے؟ میں نے کہا: خطاب کا بیٹا۔ وہ میرے پاس آئے، میں نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں صابی (دین بدل دینے والا) بن چکا ہوں۔ انہوں نے کہا: تم ایسا کر گزرے؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: ایسا نہ کرو۔ میں نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے پھر کہا: ایسا نہ کرو اور مجھے چھوڑ کر اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ پھر قریش کے سرداروں میں سے دوسرے آدمی کے پاس گیا، اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون؟ میں نے کہا: خطاب کا بیٹا۔ وہ میرے پاس آئے۔ میں نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں صابی (دین بدل دینے والا) بن چکا ہوں۔ انہوں نے کہا: تم ایسا کر گزرے؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: ایسا نہ کرو، پھر وہ گھر میں داخل ہوگئے اور دروازہ بند کرلیا۔ میں نے کہا: یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ پھر ایک آدمی نے مجھ سے کہا: کیا تم اپنا اسلام عام کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: جب لوگ ’’حجر‘‘ میں بیٹھیں تو تم جمیل بن معمر جمحی کے پاس جاؤ اور اس کے پہلو میں بیٹھ کر اس سے کہو کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں صابی بن گیا ہوں؟ چنانچہ جب لوگ حجر میں بیٹھے تو میں نے ایسا ہی کیا، وہ اٹھ کھڑا ہوا اور تیز آواز سے اعلان کیا: خطاب کا بیٹا صابی (دین بدل دینے والا) ہوگیا ہے۔ لوگ مجھ پر بپھر پڑے، وہ مجھ کو مارتے اور میں ان کو مارتا۔‘‘ [1] اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں اس طرح ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو قریش آپ کے اسلام کو نہ جان سکے۔ آپ نے کہا: مکہ والوں میں کون ایسا آدمی ہے جو باتوں کو خوب پھیلاتا ہو؟ آپ کو بتایا گیا کہ جمیل بن معمر جمحی۔ آپ اس کے پاس گئے اور میں آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چل رہا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ میں اس وقت چھوٹا لڑکا تھا اور جو کچھ دیکھتا یا سنتا تھا اسے سمجھتا تھا۔ آپ اس کے پاس آئے اور کہا: اے جمیل میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ اللہ کی قسم آپ نے ابھی دوسرا کلمہ کہا بھی نہ تھا کہ وہ اپنی چادر کو گھسیٹتے ہوئے بھاگا۔ عمر اس کے پیچھے تھے اور میں اپنے والد کے پیچھے، یہاں تک کہ جب وہ مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہوا تو تیز آواز سے چیخا: اے قریش کے لوگو! جبکہ وہ لوگ کعبہ کے اردگرد اپنی مجلسوں میں بیٹھے تھے۔ بے شک عمر بن خطاب صابی (دین بدل دینے والا) ہوگیا اور جناب عمر رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے چلتے تھے اور کہتے تھے: اس نے جھوٹ کہا ہے، بلکہ میں اسلام لے آیا ہوں اور گواہی دی ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول
[1] حلیۃ الأولیاء: ۱/۴۰۔ صفۃ الصفوۃ: ۱/۱۰۳۔ ۱۰۴ [2] الخلیفۃ الفاروق عمر بن الخطاب، ص: ۲۶۔ ۲۷ [3] الریاض النضرۃ/ تالیف، محب الطبری: ۱/ ۲۵۷