کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 558
ملاقات ہوگئی، اس نے دیکھتے ہی ناراضی کو بھانپ لیا اور کہا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: ہٹ جاؤ، تم نے مجھے تکلیف دی ہے اور غصہ دلایا ہے۔ وہ عورت ہٹ گئی۔ پھر آپ نے لوگوں سے کہا: اندر داخل ہو جاؤ، وہ سب اندر گئے۔ پھر آپ نے کہا: آپ لوگ اپنی اپنی طرف سے اس پردے کو کھینچیں اور اسے پھاڑ دیں چنانچہ انہوں نے اسے مکمل طور پر پھاڑ دیا اور زمین پر گرا دیا اور مجاشع رضی اللہ عنہ ابھی خط اپنے ہاتھ میں لیے تھے اسے زمین پر نہ رکھا تھا۔ اسی طرح شام کے سفر کے دوران عمر رضی اللہ عنہ کو یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے کھانے پر مدعو کیا۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو اس میں کچھ پردوں کو لٹکتے ہوئے دیکھا۔ آپ انہیں پھاڑنے لگے اور کہتے: تیرا برا ہو، کیا تم دیواروں کو وہ کپڑا پہناتے ہو کہ اگر اسے انسانوں کو پہناؤ تو گرمی وسردی میں وہ ان کی ستر پوشی کرے۔[1] ۴: تادیبی کارروائی میں مارنا پیٹنا: سیّدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی تادیبی کارروائیوں میں مار کو بھی استعمال کیا۔ آپ کے بارے میں یہ بات کافی مشہور تھی کہ کوڑا ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور اسی سے مارتے ہیں۔ بعض ناپسندیدہ حرکتوں کی وجہ سے آپ نے اپنے کچھ گورنروں کو مارا بھی ہے۔ چنانچہ جب آپ نے شام کا دورہ کیا تو اپنے بعض گورنران کے پاس ضرورت سے زیادہ سامان دیکھا، ان پر سخت ناراض ہوئے اور اپنے درّے سے ان کی پٹائی کی۔[2] شام ہی کے سفر میں بعض سپہ سالاروں نے آپ کا استقبال کیا، سب سے پہلے یزید بن ابی سفیان اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما ملے پھر خالد رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی یہ سب لوگ گھوڑوں پر سوار تھے اور نہایت قیمتی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے جو مجاہدین کے لیے مناسب نہ تھا۔آپ ان لوگوں کو دیکھ کر اونٹ سے اتر گئے اور پتھر اٹھا کر انہیں مارا اور کہا: کتنی جلدی تم اپنی باتوں سے پلٹ گئے ہو۔ خبردار! اس پوشاک میں کبھی میرا استقبال نہ کرنا۔ دوسال میں تم لوگ کافی آسودہ ہو گئے۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے دوبارہ ایسا کیا تو تمہیں بدل کر دوسروں کو سپہ سالار مقرر کر دوں گا۔ ان لوگوں نے کہا: اے امیرالمومنین! لباسوں کی یہ چمک دمک صرف اوپر ہی ہے، اندر سے ہم ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ آپ نے فرمایا: تب ٹھیک ہے۔[3] عہدۂ گورنری سے ہٹا کر بکریوں کا چرواہا بنا دینا: سیّدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک گورنر کی تادیبی کارروائی میں یہ طریقہ بھی استعمال کیا۔ ابن شبہ روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو شام کا امیر بنا کر بھیجا پھر آپ کو خبر ملی کہ انہوں نے اپنے لیے اعلیٰ قسم کا ایک حمام بنایا ہے اور کچھ مخصوص لوگوں کو اپنا ہم نشین مقرر کیا ہے۔ آپ نے خط لکھ کر انہیں بلوایا، وہ آئے تو آپ نے انہیں تین دن کے لیے نظر بند کر دیا پھر باہر نکلنے کی اجازت دی اور ان کے لیے ایک اونی
[1] تاریخ المدینۃ: ۳/۸۱۸۔ [2] السیاسۃ الشرعیۃ: ابن تیمیۃ ص۱۰۵۔ [3] فتوح البلدان: ص۷۷، نہایۃ الأرب: ۱۹/۸۔ [4] الادارۃ الإسلامیۃ: مجدلاوی ص ۲۱۶۔