کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 555
جاتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو اور سعید رضی اللہ عنہ کو اکٹھا کیا اور گویا ہوئے: ’’اے اللہ! سعید کے بارے میں میرے حسن ظن کو آج غلط نہ ٹھہرانا۔‘‘ پھر فیصلہ شروع کیا۔ سعید رضی اللہ عنہ کے سامنے ہی لوگوں سے پوچھا: ان کے بارے میں تمہیں کیا شکایت ہے؟ انہوں نے کہا: یہ اس وقت تک گھر سے نہیں نکلتے جب تک کہ سورج کافی اوپر نہیں چڑھ جاتا۔ آپ نے سعید رضی اللہ عنہ سے کہا: تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں وجہ بتانا اچھا نہیں سمجھتا۔ پھر بھی ’’میرے اہل خانہ کا خادم کوئی نہیں ہے، میں اپنا آٹا خود گوندھتا ہوں، اس میں خمیر آنے کا انتظار کرتا ہوں، اپنی روٹی خود پکاتا ہوں، وضو کرتا ہوں اور پھر گھر سے باہر نکلتا ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا: تم لوگوں کو ان سے اور کیا شکایت ہے؟ انہوں نے کہا: رات کو کسی کی بات نہیں سکتے ۔ آپ نے کہا: سعید تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: میں وجہ بتانا معیوب سمجھتا ہوں پھر بھی ’’میں نے دن ان لوگوں کے لیے اور رات اللہ کے لیے خاص کی ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: تم لوگوں کی اور کیا شکایت ہے؟ انہوں نے کہا: یہ مہینہ میں ایک دن گھر سے باہر بالکل نہیں نکلتے۔ آپ نے کہا: سعید تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: میرے پاس کوئی خادم نہیں جو میرے کپڑے دھوئے اور نہ میرے پاس دوسرے کپڑے ہیں کہ بدل لوں لہٰذا میں کپڑے دھو کر بیٹھا رہتا ہوں یہاں تک کہ وہ سوکھ جاتے ہیں، پھر انہیں درست کرتا ہوں اور دن کے آخری وقت میں لوگوں کے پاس آتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم لوگوں کو ان سے اور کیا شکایت ہے؟ انہوں نے کہا: اچانک کسی نہ کسی دن ان پر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا: سعید تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: میں نے مکہ میں خبیب کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، قریش نے ان کے جسم کے گوشت کو جگہ جگہ سے کاٹ دیا تھا پھر انہیں سولی پر چڑھا دیا اور کہا: کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمہاری جگہ محمد ہوتے؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا: اللہ کی قسم! میں ہرگز یہ پسند نہ کروں گا کہ اپنے اہل وعیال میں مزے اڑاؤں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ میں جب اس منظر کو سوچتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت میں مشرک تھا، اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا تھا اس لیے ان کی مدد نہ کر سکا، تو مجھے یہ خوف لاحق ہو جاتا ہے کہ اس گناہ کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہرگز نہ بخشے۔ یہ سوچ کر مجھ پر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سب سن کر کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے میرے حسن ظن کو غلط نہیں ٹھہرایا اور پھر واپس جا کر سعید رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ہزار دینار بھیجے اور کہا: ان سے اپنا کام چلاؤ لیکن سعید رضی اللہ عنہ نے انہیں ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا۔[1] ۵: رعایا کے ایک فرد کے ساتھ حقارت واستہزاء کی وجہ سے گورنر کی معزولی: قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک انصاری نوجوان کو عامل (افسر) بنا کر بھیجا۔ وہ باشندگان حیرہ کے ایک رئیس عمرو بن حیان بن بقیلہ کے یہاں مہمان ہوئے، اس نے ان کی طلب کے مطابق
[1] محض الصواب: ۲/۵۵۲ اس کی سند حسن ہے۔ [2] صحیح التوفیق سیرۃ وحیاۃ الفاروق: ص ۱۳۴، اس کی سند حسن ہے۔ [3] صحیح التوفیق سیرۃ وحیاۃ الفاروق: ص ۱۳۳، اس کی سند حسن ہے۔