کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 554
کی ضرورت سننے خود گئے۔ چنانچہ وہ آدمی آیا اور رونے لگا۔ آپ بھی رونے لگے پھر پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: اے امیرالمومنین! میں نے شراب پی لی تھی، جس پر ابوموسیٰ اشعری نے مجھے کوڑے مارے اور میرے چہرہ پر کالک ملی، لوگوں میں گھمایا اور سب کو میرا بائیکاٹ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ تلوار اٹھاؤں اور ابو موسیٰ کو مار ڈالوں یا آپ کے پاس چلوں تاکہ مجھے ایسی جگہ بھیج دیں جہاں مجھے کوئی نہ جانتا ہو یا پھر دیار کفر میں چلا جاؤں۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے لگے اور کہا: اگر صرف شراب نوشی ہی تمہارا جرم ہے تو اور لوگوں نے بھی دور جاہلیت میں شراب پی ہے۔ پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا: ’’میرے پاس فلاں آدمی آیا تھا اور اس نے یہ یہ بات بتائی لہٰذا اس خط کو پاتے ہی لوگوں کو حکم دو کہ اس کا بائیکاٹ بند کریں اس کے ساتھ میل محبت سے رہیں اور وہ اگر توبہ کر لیتا ہے تو اس کی گواہی کو معتبر جانو۔‘‘ پھر آپ نے اسے کپڑوں کا ایک جوڑا دیا اور دو سو درہم دینے کا حکم دیا۔[1] اور ایک روایت میں ہے کہ ’’فلاں بن فلاں تیمی نے مجھے ایسی ایسی باتیں بتائی ہیں۔ اللہ کی قسم اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو تمہارے چہرہ پر کالک ملوں گا اور لوگوں میں گھماؤں گا لہٰذا اگر تم چاہتے ہو کہ میری اس بات کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے تو فوراً لوگوں کو اس سے ملنے، اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کی اجازت دے دو اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اس کی گواہی بھی معتبر جانو۔‘‘ پھر آپ نے اسے ایک جوڑا کپڑا، ایک سواری اور دو سو درہم دے کر روانہ کیا۔[2] اس واقعہ میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ جذبہ خالص نمایاں نظر آتا ہے کہ آپ کا کوئی بھی گورنر مجرموں کو سزا دیتے وقت شرعی سزاؤں میں حد سے تجاوز نہ کرے۔[3] ۴: سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے خلاف حمص والوں کی شکایت: خالد بن معدان کا بیان ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حمص میں سعید بن عامر جمحی رضی اللہ عنہ کو ہمارا گورنر بنایا اور ایک مرتبہ جب عمر رضی اللہ عنہ حمص آئے تو کہا: اے حمص والو! تم نے اپنے گورنر کو کیسا پایا؟ تو انہوں نے ان کی شکایت کی۔ واضح رہے کہ اس وقت حمص کو چھوٹا کوفہ کہا جاتا تھا کیونکہ اپنے حکام کے خلاف ان کی بھی شکایات کافی رہتی تھیں۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ سعید کے متعلق ہماری چار شکایات ہیں۔ وہ ہمارے پاس دن کافی چڑھ جانے کے بعد آتے ہیں۔ آپ نے پوچھا: اس سے بڑی شکایت اور کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رات کو کسی کی بات نہیں سنتے۔ آپ نے کہا: یہ تو بڑی شکایت ہے اور کیا ہے؟ انہوں نے کہا: مہینے میں ایک دن بالکل گھر سے نہیں نکلتے۔ آپ نے فرمایا: یہ بھی بڑی بات ہے اور کیا ہے؟ انہوں نے کہا: مہینہ میں کسی نہ کسی دن اچانک بے ہوش ہو
[1] تاریخ المدینۃ: ۳/۸۰۷، ۸۰۸ اس روایت کی سند منقطع ہے۔ [2] محض الصواب: ۲/۴۶۷ اس کی سند حسن ہے۔