کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 552
کرتے تھے کہ امیرالمومنین کے پاس میری کوئی ناپسندیدہ خبر نہ پہنچے۔ چنانچہ اسی طرح کا ایک واقعہ یوں پیش آیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبدالرحمن اور ایک دوسرے آدمی نے ایک شربت پی لیا ، وہ نہیںجانتے تھے کہ یہ نشہ آور ہے لیکن پینے کے بعد مدہوش ہوگئے پھر خود ہی وہ دونوں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اپنے اوپر شراب نوشی کی حد نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ لیکن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دونوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا۔ عبدالرحمن نے کہا: اگر آپ حد نافذ نہ کرو گے تو میں اپنے والد کو بتا دوں گا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے سوچا کہ اگر میں ان دونوں پر حد نافذ نہیں کرتا تو یقینا خبر پا کر عمر رضی اللہ عنہ غصہ ہوں گے اور مجھے معزول کر دیں گے۔ پھر آپ نے لوگوں کے مجمع میں ان دونوں کو کوڑے لگوائے اور اپنے گھر میں لا کر ان کے سر کے بال منڈوا دے۔ جب کہ سزا دینے کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ مجمع عام میں کوڑے لگتے اور وہیں سر کے بال بھی منڈائے جاتے۔ خبر ملنے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے تہدید آمیز انداز میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا، اس کا عنوان یہ تھا: ’’تم نے عبدالرحمن کو اپنے گھر میں کوڑے مارے اور اپنے گھر میں اس کا سر منڈوایا حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ میرے حکم کے خلاف ہے۔ عبدالرحمن تمہاری رعایا کا ایک عام فرد ہے، تم اس کے ساتھ بھی ویسا ہی کرتے جیسا کہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہو لیکن تم نے سوچا کہ وہ امیرالمومنین کا صاحبزادہ ہے جب کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ جس آدمی پر اللہ کاحق واجب ہوتا ہو اسے اس پر نافذ کرنے میں میرے نزدیک کسی کے لیے کوئی مروت نہیں ہے۔‘‘[1] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی گورنری کے دوران میں ان کے مجاہدین کی طرف سے بھی ان کے خلاف کچھ شکایات کی گئیں نیز بعض قبطیوں نے بھی کبھی کبھی آپ کے خلاف عمر رضی اللہ عنہ سے شکایات کیں۔ جس کی وجہ سے کئی مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو مدینہ طلب کیا تاکہ ان کی سرزنش کر سکیں۔ بلکہ کبھی کبھی بعض بے اعتدالیوں کی وجہ سے ان کو سزا بھی دی۔ مثلاً ایک مرتبہ جب ایک مصری آدمی کوڑے سے مارے جانے کی شکایت لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے عمرو رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے کو طلب کیا پھر مصری آدمی کو عمرو کے بیٹے سے بدلہ لینے کا حکم دیا اور کہا کہ اگر تم اس کے باپ عمرو کو بھی مارو گے تو ہم بیچ میں نہیں آئیں گے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ’’تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد جنم دیا ہے۔‘‘[2] اسی نوعیت کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک فوجی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آیا کہ انہوں نے اسے منافق کہا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے شکایت سننے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط لکھ کر اس
[1] التاریخ الإسلامی: الحمیدی ۱۱/۲۲۲۔ [2] دور الحجاز فی الحیاۃ السیاسیۃ: ص۲۵۷۔ [3] تاریخ الطبری: ۵/۲۲۵۔ [4] فتوح مصر وأخبارھا: ص۹۲۔