کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 551
اس واقعہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے قول ’’اگر احتیاط کا تقاضا نہ ہوتا تو ان شرپسندوں کا راستہ واضح تھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کی شکایات کی حقیقت واضح ہوگئی، وہ ظالم اور جاہل ہیں اور پھر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ سعد رضی اللہ عنہ ان شکایات سے بے داغ اور بری ہیں، تاہم امت مسلمہ کی مصلحت اس بات کی متقاضی ہے کہ فتنوں کے وجود میں آنے اور پر پرزے نکالنے سے قبل ہی انہیں دبا دیا جائے تاکہ اختلاف وانتشار اور قتل وخونریزی کی نوبت نہ آئے۔ چونکہ مدعی علیہ یعنی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تہمت سے بری تھے اس لیے ان کی ثقاہت وعظمت میں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گورنری اور کسی بھی ذمہ داری کو اپنے لیے غنیمت نہیں بلکہ بارگراں سمجھتے تھے اور مکلف کیے جانے پر اسے ایسا فریضہ سمجھتے تھے جس سے اللہ کی رضا مندی حاصل کر سکیں گویا مسلمانوں کے کسی معاملہ کی ذمہ داری اللہ کے پرہیزگار بندوں کے لیے عمل صالح کی بجا آوری اور آخرت سنوارنے کا ایک ذریعہ ہے اور اگر یہ مناصب وذمہ داریاں باعث فتنہ ہو جائیں تو حکمت کا تقاضا ہے کہ اس سے کنارہ کشی کر لی جائے، جیسا کہ ہم اس واقعہ میں دیکھ رہے ہیں اور چونکہ ہر ناگہانی واقعہ سابقہ روایات میں تبدیلی کا ایک رخ متعین کرتا ہے اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کچھ کیا کہ جب سعد رضی اللہ عنہ پر کچھ لوگوں نے انگلی اٹھائی تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس منصب سے ہٹا دیا اور آپ کے نائب اور قابل اعتماد فرد عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان کو وہاں کا گورنر بنا دیا۔[1] پھر سعد رضی اللہ عنہ کو آپ نے مدینہ میں باقی رکھا اور انہیں اپنے مشیر وں میں شامل کر لیا[2] اور جب آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا کہ جس سے پھر جانبر نہ ہو سکے تو جن چھ افراد کو خلافت کے لیے نامزد کیا ان میں سعد رضی اللہ عنہ کو بھی شامل کیا اور اپنے بعد نامزد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کر گئے کہ سعد کو کہیں کا گورنر ضرور بنا دیں گے کیونکہ ان میں کسی برائی کی وجہ سے میں نے ان کو معزول نہیں کیا تھا بلکہ مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں وہ شرپسند عناصر کی برائی کا نشانہ نہ بن جائیں۔[3] ۲: مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے خلاف شکایات: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے تئیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں کافی سختی تھی۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے زیر کنٹرول ریاست کے مختلف امور میں عمر رضی اللہ عنہ دخل اندازی کرتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے منبر بنوایا تو ان کی طرف خط لکھا کہ ’’مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے اپنے لیے منبر بنوایا ہے، تم اس پر چڑھ کرلوگوں کی گردن پر بیٹھنا چاہتے ہو۔ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ کھڑے رہو اور مسلمان تمہارے قدموں کے پاس رہیں۔ میں تمہیں زور دے کر کہتا ہوں کہ اسے فوراً توڑ دو۔‘‘[4] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سخت نگرانی سے کافی ڈرتے تھے اور جانتے تھے کہ امیرالمومنین عدل وانصاف قائم کرنے اور شرعی حدود کے نفاذ میں کس قدر حریص ہیں۔ اس لیے آپ پوری کوشش
[1] تاریخ الطبری: ۵/۱۰۴۔