کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 550
یہ شہرت ومکاری کے لیے یہ بات کہہ رہا ہے تو اس کی آنکھیں بے نور کر دے ، بچوں کی کثرت کر دے اور اسے فتنوں میں مبتلا کر دے۔‘‘ پھر نتیجہ یہی ہوا کہ وہ اندھا ہوگیا اور اس کے دس بیٹیاں پیدا ہوئیں کسی عورت کے بارے میں سنتا تو غلط نیت سے اسے قبضہ میں کرنا چاہتا اور جب پکڑا جاتا تو کہتا: ’’یہ سعد جیسے نیک و با برکت آدمی کی بددعا کا نتیجہ ہے۔‘‘ پھر سعد رضی اللہ عنہ نے پورے فتنہ پرورگروہ کے لیے یہ بددعا کی: ’’اے اللہ! اگر یہ لوگ غرور، شر وفساد اور جھوٹا علم لے کر نکلے ہیں تو انہیں سخت آزمائش میں ڈال دے۔‘‘ چنانچہ وہ سب سخت آزمائش سے دوچار ہوئے۔ جس دن حسن بن علی رضی اللہ عنہما پر بلاس آباد میں ’’جراح‘‘ نے جان لیوا حملہ کیا تو تلواروں سے اس کے جسم کے ٹکڑے ہوگئے۔ ’’قبیصہ‘‘ پتھروں سے مارا گیا، اور ’’اربد‘‘ تلوار کی پشت سے مار مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس واقعہ میں پرہیزگاروں اور اللہ کے مقرب بندوں کے لیے اس کی مدد و معیت کی ایک نادر مثال موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے خلاف سعد رضی اللہ عنہ کی دعا قبول فرمائی اور ان سب کو بددعا کے برے انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ بے شک سعد رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کی دعا کی قبولیت اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ نیکوکار اور پرہیزگار لوگوں پر اللہ کی خاص عنایت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے منکرین، اسلام کے اس پوشیدہ وموثر ہتھیار سے بہت خوف کھاتے ہیں اور تمام تر دنیاوی ومادی اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود اس کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور نہ اسے روک پاتے ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بددعا کی تھی ان کی بری موت اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے دل شروفساد اور نفس پرستی کی آماجگاہ تھے اور اسی چیز نے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے دفاع کیا تھا اور کہا تھا: ’’میں پہلا شخص ہوں جس نے مشرکوں سے لڑتے ہوئے کسی مشرک کا خون بہایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے نام کے ساتھ اپنے ماں باپ کو ذکر کیا، مجھ سے پہلے کسی کو یہ سعادت نہ ملی چنانچہ آپ نے غزوہ احد کے موقع پر کہا تھا: ((فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ۔))’’تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘ میں اسلام لانے والا پانچواں فرد ہوں۔ بنو اسد کے لوگ کہتے ہیں کہ میں انہیں اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتا ہوں اور شکار میں مشغول رہتا ہوں۔ بہرحال محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے ساتھ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھی لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور پوری تحقیق سے آپ کو آگاہ کیا۔ آپ نے فرمایا: اے سعد! تم نماز کیسی پڑھاتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: پہلے کی دو رکعتیں لمبی اور آخر کی دونوں مختصر کرتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے بارے میں میرا ایسا ہی گمان ہے۔ پھر فرمایا: اگر احتیاط کا تقاضا نہ ہوتا تو ان شرپسندوں کا راستہ بالکل واضح تھا۔ پھر پوچھا: اے سعد! تم کوفہ پر کس کو اپنا جانشین بنا کر آئے ہو؟ انہوں نے کہا: عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان کو۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ ہی کو وہاں کا مستقل گورنر نامزد کر دیا۔[1]
[1] تاریخ الطبری: ۵/۱۰۳۔ [2] تاریخ الطبری: ۵/۱۰۳۔