کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 55
دعوت الی اللہ کے لیے ڈٹ جانا اور اس کے لیے مشکلات برداشت کرنا: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ مکمل خلوص وللہیت کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے اور پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے استحکام کے لیے کام کیا۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : اے اللہ کے رسول! کیا زندہ یا مردہ دونوں حالتوں میں ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بَلٰی وَالَّذفیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ إِنَّکُمْ عَلَی الْحَقِّ إِنْ مُتُّمْ وَإِنْ حَیِیْتُمْ۔)) ’’ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم حق پر ہو خواہ تم وفات پا جاؤ یا تم باحیات رہو۔‘‘ آپ نے کہا: پھر چھپنا کیوں؟ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، آپ ضرور بالضرور کھلے عام نکلیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ علانیہ دعوت کا وقت آگیا ہے، اور اسلامی دعوت اتنی طاقتور ہوچکی ہے کہ خود اپنا دفاع کرسکے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت کی اجازت مل گئی، آپ صحابہ کی دو صفوں کے درمیان نکلے۔ ایک میں عمر تھے اور دوسرے میں حمزہ۔ وہ گرد آلود ہوگئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، جب قریش نے (آپ کے ساتھ عمر اور حمزہ رضی اللہ عنہما کو) دیکھا تو انہیں اس قدر تکلیف ہوئی کہ اتنی تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو ’’فاروق‘‘ کا لقب دیا۔ [1] اللہ تعالیٰ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے ذریعہ سے اسلام اور مسلمانوں کو قوت بخشی، آپ بہت نڈر آدمی تھے، اس بات کی بالکل پروا نہ کرتے تھے کہ میرے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ آپ اور حمزہ رضی اللہ عنہما کے ذریعہ سے دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ رہے۔ [2] سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مشرکین قریش کو چیلنج کیا، ان سے لڑائی کی، یہاں تک کہ کعبہ میں خود [3] اور آپ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے نماز پڑھی۔ سیّدنا عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) اسلامی دعوت کے دشمنوں کو ہر ممکن تکلیف دینے کے خواہش مند تھے، آپ اس سلسلہ میں اپنا مؤقف اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’میں کسی مسلمان کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا، میں اپنے ماموں ابوجہل کے پاس گیا۔ وہ اپنی قوم میں معزز
[1] اخبار عمر، الطنطاویات، ص: ۱۸ [2] فضائل الصحابۃ/ امام احمد بن حنبل: ۱/ ۳۴۴