کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 54
’’اے اللہ! ابوجہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ بہتر ہو اس کے ذریعہ سے اسلام کو غالب کردے۔‘‘ آپ ( رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ بتاؤ۔ جب انہوں نے بات کی سچائی کا اعتبار کرلیا تو کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کے نیچے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار سنبھالی، گردن میں لٹکا لی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہرضی اللہ عنہم کی طرف چل نکلے۔ وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، جب انہوں نے آپ ( رضی اللہ عنہ ) کی آواز سنی تو خوفزدہ ہوگئے اور کسی نے بھی دروازہ کھولنے کی ہمت نہ کی، کیونکہ انہیں جناب عمرکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدت عداوت معلوم تھی۔ جب حمزہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ خوفزدہ ہیں تو کہا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب ہیں۔ آپ نے کہا: عمر بن خطاب ہیں؟ دروازہ کھول دو۔ اگر اللہ نے اس کے لیے بھلائی چاہی تو وہ اسلام لے آئے گا، اور اگر اس کے علاوہ اس کا ارادہ ہے تو اس کا قتل کرنا ہمارے لیے آسان ہوجائے گا۔ انہوں نے دروازہ کھول دیا، سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے آدمی نے آپ (عمر) کے دونوں بازوؤں کو پکڑ لیا، یہاں تک کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف بڑھے اور انہی کی چادر سے ان کی کمر کو پکڑ لیا، پھر تیزی سے کھینچا اور کہا: ((ما جاء بک یا ابن الخطاب؟ واللّٰه ما أری أن تنتہی حتی ینزل اللّٰه بک قارعۃ۔)) ’’اے خطاب کے بیٹے! تمہارا کیسے آنا ہوا؟ اللہ کی قسم میں تم کو تمہارے ارادے سے باز آنے والا نہیں پاتا یہاں تک کہ تم پر اللہ تعالیٰ مصیبت ڈال دے۔‘‘ عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے پاس اللہ، اس کے رسول، اور اللہ کی طرف سے آپ جو لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے آیا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جو دار ارقم میں موجود تھے جان لیا کہ عمر اسلام لے آئے۔ پھر صحابہ اِدھر اُدھر چلے گئے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کے ساتھ جب عمر بھی اسلام لے آئے تو انہوں نے کافی قوت محسوس کی، اور انہیں لگا کہ اب یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہیں پہنچنے دیں گے۔ اور دیگر صحابہ بھی ان دونوں کے ذریعہ سے اپنے دشمن سے بدلہ لے لیں گے۔[2]
[1] فضائل الصحابۃ؍ احمد بن حنبل: ۱؍۳۴۴ [2] عمر بن خطاب، الطنطاویات، ص: ۱۱۷،ترمذی ، مناقب:۳۶۸۱۔